https://www.drrizwanali.com/

Islam as Code of Life

What is Islam?

An introduction to Islam.

Islam is a complete code of life. It teaches us about our all activities, either it’s are related to our religious life, social life, financial life, or political life.

Here we are going to learn more about the all aspects of human life and the teachings of Islam about these aspects.

If we review our life and all activities of our daily life, we will know that we are working in four major areas of life: 1. Religion, 2. Politics, 3. Economic, 4. Social activities.

In other hand if we research or explore either Islam guide us in all these aspects of our life or Islam guide us about only religious activities, we come to know that Islam has complete system of guidence for all aspects.

Some time we misinterpret Islam as it is only for some religious practices. But is should be clear that Islam is a complete code of life. It deals with all human life. It gives us guidance about our all life, even it discusses human before his birth and to the matters after his death.

Islam is just like a school where we need to get admission and then we must attend classes and follow the instruction for fulfillment of getting degree or certificate of successfulness.

Basic beliefs of Islam are just filling the admission form, where we promise to obey Allah Almighty and Prophet Muhammad PBUH.

After the admission we are required to do necessary acts or duties to remain in this school (i.e. Islam).

Necessary action and duties are consisting of some DOs and DO NOTs. And these duties are deals with religion, politics, social life, and financial activities of a person.

#What is #Islam #Religioin #Politics #SocilaLife #Economics #Finance

#Definition of #Islam

Dr. Rizwan Ali

Notes Islamic Education || Islamiat Lazmi First Year || Inter Part First

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نوٹس اسلامیات لازمی انٹر پارٹ فرسٹ – گیارھویں جماعت نوٹس

www.facebook.com/DrRizwanOnline

س:عقیدہ کے لغوی اور اصطلاحی معانی لکھیں؟ نیز بتا ئیں کہ عقیدہ کو کس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے؟

ج:لفظ عقیدہ  ” عقد ” سےبنا ہے ۔ عقد کے معنی : “باندھنا “اور” گرہ لگانا” کے ہیں ، عقیدہ کے لغوی معانی ہیں :” گرہ لگا ئی ہوئی” اور” باندھی ہوئی چیز”

عقیدہ کے اصطلاحی معانی:کسی انسان کے پختہ اور اٹل نظریات   اس کا عقیدہ کہلاتے ہیں۔

٭           عقیدہ کی مثال ایک بیج جیسی ہے اور عمل “اس بیج سے اگنے والے پودے کی  طرح  “ہے ۔

یعنی انسان کے عقائد اس کے اعمال کے محرک ہیں ، جیسے عقائد ہوں گے ویسے ہی اس کے اعمال ہوں گے۔یہ عقائد انسان کے دل و دماغ پر حکمرانی کرتے ہیں۔

س: اسلام کے بنیادی عقائد کتنے ہیں اور کون کون سے ہیں؟/ عقائد اسلام تحریر کیجیے۔

ج: اسلام کے بنیادی عقائد پانچ ہیں:

 1۔ عقیدہ توحید          2۔ عقیدہ رسالت       3۔ملائکہ(فرشتوں) پر ایمان     4۔الہامی (آسمانی) کتابوں پر ایمان               5۔ عقیدہ آخرت

س: عقیدہ توحید سے کیا مراد ہے، لغوی اور اصطلاحی معانی لکھیں؟

ج: لغوی معنی: ایک ماننا / واحد ماننا اور یکتا جاننا

اصطلاحی مفہوم: اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات ، صفات اور صفات کے تقاضوں میں واحد اور لاشریک ماننا  عقیدہ توحید کہلاتا ہے۔

س: عقیدہ توحید کے انسانی زندگی پر  چار اثرات لکھیں؟

ج:1۔عاجزی وانکساری 2۔عزت نفس  3۔وسعت نظر  4۔ استقامت وبہادری 5۔تقویٰ اور پرہیز گاری     6۔رجائیت اور اطمئنان قلب

س: عقیدہ آخرت کے انسانی زندگی پر اثرات لکھیں؟

ج: 1۔ نیکی سے رغبت اور بدی سے نفرت 2۔بہادری اور سرفروشی 3۔صبر وتحمل 4۔مال خرچ کرنے کا جذبہ 5۔ احساس ذمہ داری

س: شرک کا  لغوی و اصطلاحی مفہوم قلم بند کیجیے؟

ج: لغوی معنی :          برابری ،حصہ داری ، شراکت داری اور ساجھا پن

اصطلاحی معنی :           “اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات یا صفات کے تقاضوں میں کسی اور کو اس کا حصہ دار  یا  ساجھی ٹھہرانا شرک کہلاتا ہے”

س: توحید اور شرک کی اقسام لکھیے؟

ج:توحید کی اقسام : 1۔ توحید فی الذات 2۔ توحید فی الصفات 3۔ صفات کے تقاضوں میں توحید

شرک کی اقسام : 1۔ شرک فی الذات 2۔ شرک فی الصفات 3۔ صفات کے تقاضوں میں شرک

توحید فی الذات:       اللہ تعالیٰ کی ذات اورحقیقت میں کوئی بھی اس کا حصہ دار نہیں،نہ اس کا کوئی باپ ہے نہ اولاد، وہ اکیلاہے اور لاشریک ہے ۔

توحید فی الصفات:      اللہ تعالیٰ اپنی صفات کے لحاظ سے یکتا اور بے مثل ہے ، اس کی صفات کاملہ جیسی صفات اور کسی  میں بھی موجود نہیں ہیں ۔

(وضاحت: اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتی ہیں ، اللہ تعالیٰ کی صفات ابدی ہیں ، اللہ تعالیٰ کی صفات غیر محدود اور کامل ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر کسی کی صفات اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہیں، وہ ابدی نہیں ہیں اور نہ ہی غیر محدود ہیں۔ )

صفات کے تقاضوں میں توحید:    جب اس کائنات کا خالق ،مالک اور حاجت روا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے اور تمام مخلوقات اسی کی محتاج ہیں  تو   تمام مخلوقات پر لازم ہے کہ وہ  صرف  اللہ کی عبادت کریں اور جو کچھ  مانگنا ہو اسی سے مانگیں۔

ذات میں شرک:      اللہ تعالیٰ کی ذات اور حقیقت میں کسی دوسرے کو اس کے برابر یا حصہ دار سمجھنا، یااس کو کسی کی اولاد یا کسی کو اس کی اولا د سمجھنا۔

صفات میں شرک :    اللہ تعالیٰ  کی صفات  جیسی صفات کسی دوسرے میں ماننا ،یا کسی “غیر اللہ ” کو قادر مطلق  اور ازلی وابدی تصور کرنا۔

صفات کے تقاضوں میں شرک:  اللہ کے علاوہ کسی اور  کی عبادت / پوجا کرنا، کسی اور کے سامنے جھکنا اور اپنی حاجات و ضروریات کی تکمیل کے لیے کسی اور سے امید لگانایا مانگنا شرک فی العبادات  (صفات کے تقاضوں میں شرک) کہلاتا ہے۔

س: توحید کی اہمیت اور شرک کی مذمت میں ایک ایک آیت (عربی متن اور ترجمہ)تحریر کریں؟

توحید: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (1) اللَّهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (4)

ترجمہ: ۔(اے نبیخَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَسَلَّمَ !) آپ فرما دیجیے وہ اللہ ایک (ہی) ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ وہ کسی کا بیٹا ہے۔ اور نہ کوئی اس کے برابر ہے۔

شرک کی مذمت:  إِنَّ اللَّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء

ترجمہ : بیشک اﷲ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور جو گناہ اس کے علاوہ ہے  جس کیلئے چاہے گا، معاف کر دے گا۔

س: کلمہ طیبہ با اعراب تحریر کریں، اور ترجمہ بھی لکھیں؟

 ج:     لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہِ (اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں)

س: رسول کے لغوی اور اصطلاحی معانی لکھیں ؟

ج: لغوی : پیغام پہنچانے والا

اصطلاحی:” رسول سے مراد وہ عظیم ہستی  ہے جس کو اللہ تعالیٰ  اپنے احکامات اور تعلیمات ،  اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئے منتخب فرمائیں”

س:انبیا کرام کی خصوصیات لکھیں؟

ج:1۔ بشریت(انیباء اور رسول انسانوں میں سےہی تھے) 2۔ امانت اور وہبیت 3۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تبلیغ 4۔ معصومیت  5۔ واجب اطاعت  (ان کی اطاعت کرنا ضروری ہوتا ہے )

نوٹ: رسالت کے لغوی معانی “پیغام پہنچانا” کے ہیں ، پیغام پہنچانے والے کو ” رسول  ” کہا جاتا ہے ۔ 

نوٹ: نبی کے معانی : 1۔خبر دینے والا ۔2۔ بلند شان والاکے ہیں

نوٹ: انبیاء کرام کی تعداد تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔

س: رسالت محمدی ﷺ کی خصو صیات لکھیں؟

ج:1۔عمومیت 2۔پہلی  شریعتوں کا نسخ 3۔ کاملیت 4۔حفاظت کتاب 5۔ سنت نبوی ﷺ کی حفاظت 6۔ جامعیت 7 ۔ ہمہ گیری 8۔ ختم نبوت۔

س:رسول کی ضرورت کیوں ہوتی ہے ؟

ج:تا کہ : 1۔ رسول اللہ تعالیٰ کے پیغام کو واضح انداز میں لوگوں تک پہنچا دیں ۔2۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر خود عمل کر کے عملی نمونہ پیش کریں ۔

س:منکرین آخرت کے شبہات اور ان کے جوابات لکھیں؟

ج:شبہ نمبر 1:  وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا ضَلَلْنَا فِی الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ۬ؕ (سورۃ السجدۃ: 10)

ترجمہ: اور  انہوں نے کہا کہ : کیا جب ہم زمین  میں نیست ونابود ہو جائیں گے تو کیا ہمیں نیا جنم دیا جائے گا ؟؟؟؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے اس بات کا جواب یوں دیا : آیت : اَللّٰهُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ (سورۃ الروم: 11)

ترجمہ: جس ذات نے پہلی بار پیدا کیا وہی ذات دوبارہ پیدا کرے گی ۔

شبہ نمبر 2: منکرین آخرت کا ایک اعتراض یہ ہے کہ: قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ (سورۃ یٰسین: 78)

ترجمہ: کون زندہ کرے گا ہڈیو ں کو  جب کہ وہ بوسیدہ  ہوچکی ہوں گیں ۔

جواب:  اللہ تعالیٰ نے اس بات کا جواب یہ دیا : آیت  : قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْٓ اَنْشَاَہَآ اَوَّلَ مَرَّۃٍ  ( سورۃ یٰسین: 79)

ترجمہ: آپ کہ دیجیئے کہ ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار بنایا ہے۔

شبہ نمبر 3: منکرین آخرت کا یہ اعتراض بھی ہے کہ: اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ (سورۃ الانعام : 29)

ترجمہ: ہمارے لئے یہ دنیا ہی کی زندگی ہے  اور   ہم  دوبارہ زندہ نہ ہوں گے۔

جواب: اللہ تعالی ٰ نے اس کا یہ جواب دیا ہے : 1۔آیت:وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْۚ-ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ (سورۃ البقرۃ: 28)

ترجمہ: تم مردہ تھے ،پس تم کو زندہ کیا ۔ پھر وہ تم کو مارے گا پھر وہ تم کو زندہ کرے گا ،پھر تم اس کی لوٹائے  جاو گے۔

2۔ آیت: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ (سورۃ المومنون:115)

ترجمہ: کیا  تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تم کو  بے مقصد ہی  بنایا ہے اور  تم کو ہماری طرف نہ لوٹایا جائے گا ؟

س:  ظلم عظیم سے کیا مراد ہے ؟

ج: قرآن کریم میں شرک کو ظلم عظیم کہا گیا ہے ۔

س: ملائکہ اور اٰلھۃ کا واحد کیا ہے ؟

ج:ملائکہ کا واحد  : ملک                          اور  الھۃ کا واحد: الٰہ ہے

س:وحی کے لغوی اور اصطلاحی معانی لکھیں؟

ج: لغوی: خفیہ اشارہ ، چپکے سے دل میں بات ڈال دینا

اصطلاحی:”وحی سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ خاص پیغام ہے جو انبیا کرام اور رسولوں پر فرشتہ کے ذریعے یا براہ راست نازل ہوتا رہا”،جیسے: قرآن مجید

س:نزول وحی کی مختلف صورتیں لکھیں؟

ج:۱۔اللہ تعالیٰ کا انبیا سے براہ راست کلام کرنا    ۲ ۔فرشتے کے ذریعہ وحی    ۳۔دل  پر کسی بات کا القا کرنا   ۴۔فرشتے کا انسانی شکل میں آنا   ۵۔انبیا کے خواب

س: فرشتوں پر ایمان لانے سے کیامراد ہے ؟ مشہور فرشتوں کے نام اور ان کی ذمہ داریاں لکھیں؟

ج: فرشتوں پر ایمان لانے سے مرادیہ ہے کہ : “فرشتے اللہ تعالیٰ کی نوری مخلوق ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت میں مصروف رہتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام منظم انداز میں چلانے کے لئے مختلف فرشتو ںکی مختلف ذمہ داریاں لگا رکھی ہیں “

حضرت جبرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انبیا کرام پر وحی لے کر نازل ہونا (یہ تمام فرشتوں کے سردار ہیں)

حضرت میکائیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بارش برسانا ، ہوائیں چلانا اور لوگوں کے لئے رزق کا بندوبست کرنا

حضرت عزرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاندارو ں  کی روحیں قبض کرنا ، ان کو مَلَکُ المَوتِ (موت کا فرشتہ) بھی کہا جاتا ہے۔

حضرت اسرافیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حکم سے صور پھونکیں گے ۔

(صور سے مراد ایک بلند اور خوف  ناک آواز ہے جوقیامت کے آغاز میں ساری کائنات  میں سنائی  دی جائے گی)

 منکر اور نکیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دو فرشتے ہیں جو قبر میں سوال وجواب کرتے ہیں۔

کراما کاتبین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ فرشتے ہیں جوانسانوں کے دائیں اور بائیں کندھے پر موجود ہیں اور انسانوں کے اقوال و اعمال کو نوٹ کرتے ہیں۔

رضوان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ فرشتہ جنت کا منتظم ہے ۔

 مالک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بڑا سخت مزاج فرشتہ ہے جو جہنم کا داروغہ (چوکیدار) ہے۔

س: دنیا اور آخرت کے لغوی معانی لکھیں؟ نیز عقیدہ آخرت کا مفہوم تحریر کریں؟

ج: دنیا کے معانی :  قریب کی چیز   ،    آخرت کے معانی  : بعد میں آنے والی چیز

 عقیدہ آخرت کا اصطلاحی مفہوم: “انسان مرنے کے بعد ہمیشہ کے لئے فنا نہیں ہوتا بلکہ اس کی روح باقی رہتی ہے ، وقت آنے پے اللہ تعالیٰ اس کی روح کو دوبارہ جسم میں منتقل کرے گا ، اس کا حساب کتا ب ہو گا اور اس کو اس کے اچھے اعمال کی جزا (جنت) اور برے اعمال کی سزا(جہنم ) دی جائے گی۔”

س:عقیدہ ختم نبوت سے کیا مراد ہے ؟ ختم  کے لغوی معانی لکھیں؟

ج:عقیدہ ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ “انبیا کا جو سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوا تھا وہ حضرت محمد ﷺ پر ختم ہو گیا ، آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں  اور آپ ﷺ کے بعد کوئی سچا نبی اور رسول نہیں آ سکتا” (اسی وجہ سے آپﷺ کو خاتم النبیین  کہا جاتاہے)۔

ختم کے لغوی معانی : مہر لگانے  ،بند کرنےکے ہیں۔

س: ختم نبوت کے بارے قرآن کی آیت اور نبی مکرم ﷺ کی حدیث ؟

ج: آیت : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ (سورۃ الاحزاب: 40)

 ترجمہ: محمد ﷺ تم مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں  اور ہاں وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور نبیوں میں سے آخری نبی ہیں ۔

حدیث: اَنَا خَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَ بَعْدِيْ (سنن ترمذی:2219)                ترجمہ:میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

حدیث : “میری اور پہلے انبیاء کی مثال ایسے ہے  جیسے کسی نے کوئی حسین وجمیل عمارت بنائی اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی ، وہ اینٹ میں ہوں”(حوالہ:صحیح بخاری)

(یعنی نبوت کی عمارت اب بالکل مکمل ہوچکی ہے کسی نئے نبی کی کوئی گنجائش اور ضرورت نہیں ہے،آپ ﷺ کے بعد جس نے بھی نبی ہونے کا دعویٰ کیا وہ جھوٹا اور فریبی شخص ہے۔)

— حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں کچھ لوگوں نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا جو کہ جھوٹا دعویٰ تھا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف باقاعدہ جہاد کیا

س:قرآن کریم اور سابقہ آسمانی کتب کی تین مشترکہ تعلیمات کا تذکرہ کریں؟

ج: ۱۔عقیدہ توحید                  ۲۔ عقیدہ رسالت                                             ۳۔عقیدہ آخرت

س: کن  پیغمبروں پر صحیفے نازل ہوئے ؟

ج:۱۔حضرت ابراہیم علیہ السلام                    2۔ حضرت آدم  علیہ السلام 3۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام

س:رسول اور نبی میں کیا فرق ہے؟

ج: رسول اور نبی دونوں اللہ تعالیٰ کے منتخب شدہ بندے ہوتے ہیں ، دونوں پر وحی نازل ہوتی ہے ، فرق یہ ہے کہ ہر رسول پر باقاعدہ ایک شریعت نازل ہوتی رہی ہے  جبکہ نبی پر الگ سےکوئی نئی کتاب یا شریعت نازل نہیں ہوتی  تھی بلکہ وہ اپنے سے پہلے رسول کی تعلیمات کی تبلیغ واشاعت کا کام کرتا تھا۔

س:ملائکہ کس کی جمع ہے، اس کا معنی لکھیں ؟

ج: ملائکہ ، مَلَکُ کی جمع ہے یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی  “قاصد ” کے ہیں ۔

س: وجود باری تعالیٰ پر ایک عقلی دلیل دیں؟

ج: جس طرح ایک گھر ،بنانے والے کے بغیر اور ایک گھڑی کسی گھڑی ساز کے بغیر نہیں بن سکتی تو اتنی بڑی کائنات کسی بنانے والے کے بغیر کیسے بن سکتی ہے ؟ کائنات کا وجود اور اس کا منظم طریقے سے چلنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو بنانے والی اور چلانے والی کوئی عظیم ہستی موجود ہے ۔

س:دنیا کا پہلا انسان اور پہلا نبی کون تھا اور اس کا عقیدہ کیا تھا؟

ج: دنیا کہ پہلا انسان : حضرت آدم علیہ السلام تھے ، وہی پہلے نبی بھی تھے ۔ آپ کا عقیدہ ، عقیدہ توحید تھا۔

س: الہامی کتب کے نام لکھیے نیز وہ کن پر نازل ہوئیں؟

ج:            1۔تورات : حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی          2۔زبور: حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی                 3۔انجیل: حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی         4۔قرآن مجید: حضرت محمد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا

س: حفاظت قرآن مجید کے حوالے سے ایک آیت اور اس کا ترجمہ لکھیے۔

ج:آیت: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ بے شک ہم نے ہی یہ ذکر(قرآن) نازل کیا ہےا ور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

س: قرآن مجید کی چار خصوصیات لکھیے۔

محفوظ کتاب، جامع کتاب، عالمگیر کتاب، زندہ زبان والی کتاب وغیرہ (مزید دیکھیے درسی کتاب باب اول)

س: قرآن مجید کتاب اعجاز ہے ، اس کی وضاحت کریں۔

ج: دیکھیے درسی کتاب ، باب اول

باب دوم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارکان اسلام سے مراد دین  اسلام کے وہ بنیادی اصول اور  اعمال  ہیں جن پر اسلام کی عمارت قائم ہے۔

س: اسلام کے بنیادی ارکان کتنے اور کون کون سے ہیں؟

ج: اسلام کے بنیادی ارکان 5 ہیں : 1۔ کلمہ شہادت کا اقرار               2۔ نماز ادا کرنا           3۔ روزے رکھنا         4۔ زکوٰۃ ادا کرنا         5۔ حج کرنا

س: کلمہ شہادت میں کن دو چیزوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ؟

ج: کلمہ شھادت میں : توحید اور رسالت کا تذکرہ ہے۔

س: کلمہ شہادت اور اس  کا ترجمہ لکھیے۔

اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ

ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد  اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔

س:دین کا ستون  اور دین کی کوہان کس کو کہا گیا ہے ؟

ج:نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے اور جہاد کو دین کی کوہان کہا گیا ہے ۔

س: صوم ، صلٰوۃ ، حج ، زکوٰۃ اور  کے لغوی معانی لکھیں؟

ج:صوم: رک جانا ۔                   صلوٰۃ: دعا  کرنا/نماز               حج:زیارت کا ارادہ کرنا ۔                     زکوٰۃ: ۱۔پاک کرنا ۲۔اضافہ کرنا ۔

س: بے اثر روزوں اور بے اثر نمازوں سے کیا مراد ہے ؟

ج: بے اثر روزوں اور نمازوں سے مراد وہ  ہیں جن کا مقصد اللہ کی رضا کی بجائے دکھاوا ہو اور وہ باقاعدگی ، خشوع وخضوع اور حضوری قلب سے خالی ہوں

۔۔۔۔۔۔نبی مکرم ﷺ نے رمضان کو  شھر مواساۃ یعنی غم گساری /غم خواری کا مہینہ قرار دیاہے ۔

۔۔۔۔۔۔ کسی شخص کے مال پر زکوٰۃ اس وقت فر ض ہوگی جب اسے جمع کئے ہوئے پورا سال گزر چکا ہو۔

۔۔۔۔۔ نبی مکرم ﷺ نے حج مبرور(حج مقبول ) کو سب سے افضل جہاد قرار دیا ہے ۔

—– حاجی  دوران حج مقامِ منیٰ پر اپنے ازلی دشمن شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں۔

س: حج ، نماز ، روزہ اور زکوٰۃ کے فوائد لکھیں؟

ج:حج کے فوائد: 1۔حج کرنے سے  انسان کو  روحانی سکون اور ایمان و تقویٰ کی دولت حاصل ہوتا ہے ۔2۔اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں 3۔ گناہوں کی معافی

 4۔حج میں دنیا کے ہر کونے اور گوشے سے لوگ جمع ہوتے ہیں  اور مسلمانوں کے اتحادا ور قوت کا اظہار ہوتا ہے ۔ 5  ۔ دوسرے ممالک سے آنے والے لوگوں سے ملاقات سے بین الاقوامی تعلقات کو فروغ ملتا ہے ۔6  ۔ حجاج خرید وفروخت کے ذریعہ تجارتی اور اقتصادی فوائد بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

نماز کے فوائد : 1۔ نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے ۔ 2۔ نماز سے دلی  سکون اور اطمئنان حاصل ہوتاہے 3۔ اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں

 4۔ دن پانچ بار لوگوں دے یوں اکھٹا ہونے سے افراد معاشرہ کے درمیان محبت پید اہوتی اور ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت حاصل ہوتی رہتی ہے  5۔باجماعت نماز اور جمعہ وعیدین سے مسلمانوں میں اجتماعیت کو شعور پید ہوتا ہے ۔6۔ نماز میں ہر امیر ، غریب اکھٹے کندھے سے کندھا اور پاوں سے

 پاوں   ملا کر کھڑے ہوتے ہیں اور یوں امیر وغریب کا فرق ختم ہو کر عملی مساوات کی فضا پیدا ہوتی ہے۔7۔ نظم  و ضبط پید ہوتا ہے ۔

روزہ کے فوائد:1۔ روزہ سے جب انسان خود سارادن بھوکا رہتا ہے تو اس سے اس کو غریب و محروم لوگوں کی بھوک ، پیاس اور ان کی محرومی کا اندازہ ہوتا ہے۔ 2۔ انسان میں قناعت اور صبر کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے ۔3۔ معدہ خالی رہنے سے جسمانی صحت ملتی ہے ۔4۔اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں ۔5۔ روزہ انسان کو گناہوں سے روکے رکھتا ہے ۔

زکوٰۃ کے فوائد:1۔ نظام زکوٰۃ کے ذریعے ہم سودی نظام سے نجات حاصل کر سکتے ہیں ۔ 2۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے مال پاک ہو جاتا ہے ۔3۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے مال میں اضافہ ہوتا ہے ۔ 4۔ غریبوں اور تنگ دست لوگوں کی مالی معاونت ہو جاتی ہے ۔5۔دولت ایک جگہ جمع ہونے کی بجائے سرمایہ گردش میں رہتاہے ۔

س: جہاد کے لغوی اور اصطلاحی معانی لکھیں؟، جہاد کی اقسام کے نام لکھیں؟ نیز بتا ئیں کی کس چیز کو دین کی چھت  یا   کوہان  کہا گیا ہے ؟

ج:لغوی معانی : کوشش کرنا /جدوجہد کرنا

اصطلاحی معنی:  اللہ تعالیٰ کے دین کی تبلیغ ،حفاظت وسربلندی اور امت مسلمہ کے  دفاع کے لئے  کوشش کرنا جہاد کہلاتا ہے ۔

اقسام :(جن چیزوں کے ذریعے جہاد کیا جائےگا) 1۔ جہاد بالمال 2۔ جہاد بالقلم 3۔ جہاد باللسان 4۔جہاد بالسیف

(جہاد بالسیف کی اقسام:1: مدافعانہ جہاد ۔ 2: مصلحانہ جہاد)

اقسام: (جن کے  خلاف جہاد کیا جائےگا) 1۔ جہاد بالنفس(نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد) 2۔ شیطانی اور طاغوتی قوتوں کے خلاف جہاد3۔ ظلم کے خلاف

س: جنگ اور جہاد میں کیافرق ہے؟

ج:وہ لڑائی جو دنیاوی مقاصد کے لئے لڑی جائے وہ جنگ کہلائے گی ، جبکہ وہ جدو جہد اور کوشش جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کی سر بلندی کے لئے  کی جائے وہ جہاد کہلاتی ہے۔

س: پہلی مسلم ریاست کی بنیا کہاں رکھی گئی ؟

ج:مدینہ میں ، جس کا پرانا    نام یثرب تھا۔

س: حقوق اللہ اور حقوق العباد سے کیا مراد ہے ؟

ج:حقوق اللہ سے مراد : اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں اور حقوق العباد سے مراد : بندوں کے حقوق ہیں ۔

س:کن دو صورتوں میں غیبت جائز ہے ؟

ج:۱۔ اگر کوئی مظلوم  اپنے اوپر ہونےوالے ظلم کےبارے  کسی کو آگاہ کرے اور ظالم کی باتیں بتائے تو جائز ہے۔

۲۔کسی دھوکہ باز شخص کے شر سے لوگوں کو بچانے کے لئے ان کو اطلاع دینا یا آگا ہ کرنا۔

س:تقویٰ کے لغوی اور اصطلاحی معانی تحریر کریں؟

ج:لغوی : 1۔ڈرنا 2۔ بچنا

اصطلاحی: تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو انسان کو برائیوں سے روکتی اور نیکیوں کی طرف راغب کرتی ہے۔

ضبط نفس: اپنی خواہشات پر کنٹرول حاصل کرنا اور ان کو احکام الہی کے تا بع کرنا۔

خواہشات نفس کے خلاف جہاد کو “جہاد اکبر” کہا جاتا ہے ۔

س: جھوٹ کے نقصانا ت اور سچائی کے فوائد لکھیں؟ نیز اس بارے ایک حدیث بھی لکھیں؟

ج:جھوٹ کے نقصانات: 1۔ جھوٹ ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے ۔2۔ معاشرے میں جھوٹے شخص کی کوئی عزت باقی نہیں رہتی ۔3۔اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتے ہیں  ۔ 4۔جھوٹے فرد کا اعتبار اور اعتما د اٹھ جاتا ہے ۔

سچ کے فوائد:1۔ سچ نجات دلاتا ہے  ۔ 2۔سچ بولنے والے کی اللہ تعالیٰ خصوصی مدد کرتے ہیں ۔  3۔ اللہ تعالیٰ راضی ہوجاتے ہیں۔   4۔معاشرے میں سچے فرد کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ 5۔سچ انسان کو دنیا اور آخرت کی کامیابیاں دلاتا ہے۔

س: معاشرے میں لاقانونیت کی وجوہات ؟

ج:           1۔ خود غرضی اور مفاد پرستی                       2۔اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھنے کی گھٹیا سوچ

س:انسان کے تین باپ کون کون سے ہیں ؟

ج:           1۔ حقیقی والد             2۔ سُسر                    3۔ استاد

س: ہمسایہ کی اقسام کتنی اور کون کون سی ہیں؟

ج: ہمسایہ کی اقسام میں سے تین زیادہ اہم ہیں:

 1۔ وہ ہمسایہ جو رشتہ دار بھی ہو 

2۔ غیر رشتہ دار ہمسایہ  خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو

3۔ہم جماعت ، ہم سفر یا ہم پیشہ افراد یعنی جن سے عارضی تعلق ہو۔

س:حسن معاشرت سے کیا مراد ہے ؟

ج:   معاشرے میں باعزت اور اچھے طریقے سے زندگی بسر کرنا  ،اپنی صلاحیتو ں کو معاشرے کی ترقی ، ماحول کو خوشگوار بنانے اور افراد معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے صرف کرنا حسن معاشرت کہلاتا ہے ۔

س:نبی مکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق  سب سے بڑا گنا ہ کون سا  ہے ؟

ج: نبی اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق سب سے بڑا گناہ  شرک ہے ، اس کے بعد سب سے بڑا گنا ہ والدین کی  نافرمانی ہے اور اس کے بعد سب سے بڑا گناہ اپنی اولاد کو بھوک و افلاس کے ڈر سے قتل کرنا ہے۔

۔۔۔۔۔۔صلہ رحمی کے بارے آیت: وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ  (بنی  اسرائیل : 26) ترجمہ: اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو۔

۔۔۔۔۔۔قطع رحمی کے بارے حدیث : لا یدخل الجنۃ قاطع (صحیح بخاری)     ترجمہ: رشتہ داروں سے تعلق ختم کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا ۔

س:منافق کی  علامات لکھیں؟

ج:۱۔گفتگو کرتے وقت جھوٹ بولتاہے ۲۔وعدہ خلافی کرتاہے ۳۔امانت میں خیانت کرتا ہے ۴۔جب جھگڑاکرتا ہے تو گالیاں دیتا ہے۔

س: منافق کی اقسام ؟

ج:منافق کی دو اقسام ہیں : 1۔ اعتقادی منافق     2۔ عملی منافق

اعتقادی منافق: وہ شخص جو دل سے اسلام کی حقانیت اور سچائی کو قبول نہ کرے اور صرف ذاتی مفاد یا ملت اسلامیہ کو نقصان پہنچانے کی خاطر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے(اعتقادی منافقین نے مدینہ طیبہ میں مسجد نبوی کے مقابلے میں مسجد ضرار تعمیر کی تھی تا کہ مسلمانوں میں اختلاف ڈالا جا سکے )

عملی منافق: وہ شخص جس نے دل وجان سے اسلام کو قبول کرلیاہو لیکن اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے میں اس سے سستی اور کوتاہی ہو رہی ہو تو ایسے مسلمان کو عملی منافق کہا جائے گا۔

س: عشر سے کیا مراد ہے ؟ نیز زکوٰۃ اور عشر میں فرق واضح کریں ؟

ج: زکوٰۃ:ایک مالی عبادت ہے جس میں ہر صاحب نصاب مسلمان  ہر سال  اپنے  کل مال کا اڑھائی فیصد مستحقین زکوٰۃ کے لیے ادا کرتا ہے ۔(یہ رقم اسلامی حکومت کو ادا کی جائے گی اور کسی مملکت میں زکٰوۃ کا نظام نہ ہو تو زکٰوۃ دینے والا اس رقم کو خود ہی اپنے علاقے کے غربا میں تقسیم کردے گا)

  عُشر:        ایک مالی عبادت ہے جس میں ہر مسلمان اپنی زرعی پیداوار کا دسواں حصہ مستحقین زکوٰۃ  کی امداد کے لئے دیتا ہے۔

فرق:       زرعی پیداوار سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیے گئے مال کو عشر کہا جاتا ہے اور باقی اموال مثلا مال تجارت، سونا، چاندی ، نقدی ، اونٹ ، بکری اور گائے وغیرہ سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کو زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔

س:نصاب زکوٰۃسے کیامراد ہے ؟سونے، چاندی کا نصاب زکوٰۃ لکھیں؟

ج: نصاب زکوٰۃ سے مراد مال کی وہ خاص مقدار ہے جس کے پورا ہونے پر مالدار شخص پر زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہو جاتا ہے ۔

سونے کانصاب: ساڑھے سات تولے سونا،    چاندی کا نصاب:ساڑھے باون تولے چاندی،

مال تجارت اورنقد رقم کا نصاب:سونے یا چاندی کے نصاب کے برابر رقم

س:مصارف زکوٰۃ سے کیا  مرادہے ، مصارف زکوٰۃ کتنے ہیں؟ اور کون کون سے ہیں؟

ج:مصارف زکوٰۃ سے مراد وہ جگہیں ہیں جہاں زکوٰۃ کا مال خرچ کیا جائے گا۔

 یہ کل آٹھ ہیں :    1۔فقرا         2۔مساکین         3۔ محکمہ زکوٰۃ کے ملازمین           4۔ نو مسلموں کی تالیف قلب کے لئے

 5۔غلاموں  کو آزاد کرانے کے لئے              6۔ مقروض کے قرض کی ادائیگی کے لئے      7۔فی سبیل اللہ (جہاد اور تبلیغ دین)            

 8۔ مسافر (ضرورت مند مسافر)

س: زکوٰۃ کی شرح سے کیا مراد ہے ؟

ج:شرح زکوٰۃ سے مراد ہے مال کی  وہ خاص مقدار ہے جو زکوٰۃ فرض ہونے پر بطور زکوٰۃ  ادا کی جاتی ہے ، جیسے :سونے کی شرح زکوٰۃ ؛ اڑھائی فیصد ہے

س: ادائیگی زکوٰۃ کے چار اصول بیان کریں ؟

ج:1۔ زکوٰۃ صرف مسلمانوں سے لی جائے گی ۔

2۔ایسے رشتہ دار جن کی کفالت زکوٰۃ دینے والے کے ذمہ فرض ہو ، ان کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ( ماں ، باپ ، بیٹا ، بیٹی ، شوہر ،بیوی)۔

3۔زکوٰۃ ادا کرتے وقت یہ بتا نا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ کا مال ہے ۔

4۔زکوٰۃ پہلے قریبی رشتہ داروں اور اہل علاقہ کو دی جائے گی ، ضرورت پوری ہونے پر دیگر علاقوں میں بھیج دی جائے گی ۔

س:غیبت اور بہتان کی تعریف کریں اور فرق واضح کریں؟

ج: غیبت: کسی شخص کی خامی اس کی غیر موجودگی میں لوگوں کے سامنے بیان کرنا غیبت کہلاتاہے۔

بہتان: کسی شخص پر اس کی موجودگی یا غیر موجودگی میں کسی برائی کے ارتکا ب کا جھوٹا الزام لگانا بہتان یا اتہام  یا تہمت کہلاتا ہے۔

فرق: جس شخص کی خامی بیان کی جارہی ہے تودیکھا جائےکہ  اگر واقعتا اس شخص میں وہ خامی موجود ہے تو یہ فعل غیبت کہلائے گا اور اگر اس میں وہ خامی موجود بھی نہیں ہے یا اس نے وہ کام کیا ہی نہیں جس کی اس کی طرف نسبت کی جارہی ہے تو یہ بہتان یا اتہام کہلائے گا۔

س:انسان حسد سے کیسے بچ سکتاہے ؟

ج:انسان قناعت اور ہر حال میں شکر باری  تعالٰی کےذریعہ حسد سے بچ سکتا ہے۔

س:دیانت داری کے متعلق ایک آیت لکھیں؟

ج:آیت : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا (سورۃ النساء:58)

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ تم کو حکم  فرماتا ہے  کہ امانتیں ، امانت والوں کو ادا کر دو۔

س: ایثار سے کیا مراد ہے ؟

ج:خود تکلیف برداشت کر کے اپنی ضرورت کی چیز کسی دوسرے ضرورت مند کو دینا  ایثار کہلاتا ہے۔

س:جو لوگ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ان کے بارے قرآن نے کیا وعید سنائی ہے ؟

ج: وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ

ترجمہ:اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ، تو آپ ان کو درد ناک عذاب کی اطلاع دے دیں۔

س:حق اور فرض سے کیا مراد ہے فرق واضح کریں ؟

حق: ایک انسان کے ذمے دوسرے انسان کے لئے جو کچھ کرنا / ادا کرنا ضروری ہے وہ اس کا فرض ہے اور  یہ دوسرے انسان کا حق ہے۔

س: رشتہ دار ، ہمسایہ ، خاوند ، بیوی ، والدین اور اولاد: ہر ایک کے 4-4حقوق لکھیں؟

رشتہ دار:۱۔صلہ رحمی ۲۔حسن سلوک ۳۔مالی امداد ۴۔ وراثت میں حصہ ۵۔تحائف دینا

ہمسایہ:۱۔حسن سلوک ۲۔مالی امداد ۳۔خوشی وغمی میں شرکت ۴۔مال کی حفاظت ۵۔ عزت وآبرو کی حفاظت

خاوندکے حقوق(بیوی کے فرائض):۱۔  اطاعت ۲۔عزت کی حفاظت ۳۔قناعت وشکر گزاری ۴۔اولاد کی پرورش اور اچھی تربیت ۵۔خاوند کے رشتہ داروں سے حسن سلوک

بیوی کے حقوق(خاوند کے فرائض):۱۔حسن سلوک۲۔عزت واحترام۳۔مشاورت۴۔حق مہر ۵۔نان ونفقہ یعنی ٖضروریات زندگی کی فراہمی۔

والدین کے حقوق(اولاد کے فرائض):۱۔حسن سلوک ۲۔اطاعت وفرمانبرداری ۳۔ بڑھاپے میں سہارا ۴۔مالی تعاون ۵۔وفات کے بعد دعائے مغفرت

اولاد کے حقوق(والدین کے فرائض):۱۔محبت وشفقت  ۲۔زندہ رہنے کا حق ۳۔ تعلیم وتربیت ۴۔اولاد کے درمیان عدل  ۵۔ شادی میں مشاورت

اساتذہ کے حقوق(طلبا کے فرائض):۱۔اطاعت وفرمانبرداری ۲۔ہدایات پر عمل ۳۔بات کو توجہ سے سننا ۴۔عزت واحترام ۵۔دعائے مغفرت

طلبا کے حقوق(اساتذہ کے فرائض):۱۔ محبت وشفقت ۲۔ اچھی تربیت ۳۔ مناسب راہ نمائی ۴۔تعلیمی سہولیات کی فراہمی۵۔مالی معاونت۔

غیر مسلموں کے حقوق(اسلامی ریاست کے فرائض):۱۔جان کی حفاظت ۲۔مال کی حفاظت ۳۔عزت و ناموس کی حفاظت ۴۔عبادت کی اجازت ۵۔معاہدوں کی پابندی

س:کسب حلال کے متعلق ایک آیت اور اس کا ترجمہ لکھیں؟

آیت:” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ (البقرۃ:۱۷۲) اے ایمان والو! ہم نے تم کو جو پاک چیزیں عطا کی ہیں ان میں سے کھاو۔

س:ایفائے عھد کے متعلق ایک آیت اور ایک حدیث مع ترجمہ لکھیں؟

آیت:” يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل)

حدیث: وَلَا دِینَ لِمَنْ لَا عَھْدَ لَہ(سنن بیھقی-۱۲۶۹۰)

س: عدل اور احسان کے لغوی اور اصطلاحی معانی لکھیں؟

ج: عدل کے لغوی معنی : برابری کے ہیں         اصطلاح میں عدل سے مراد ہے کہ جس کسی کا جتنا حق بنتا ہے اتنا اس کو دے دینا

س:چار محاسن اخلاق اور چار رزائل اخلاق تحریر کریں؟

ج: محاسن اخلاق/اخلاق حسنہ(انسان کی پختہ اچھی عادات):            1۔ دیانت داری        2۔ایفائے عھد           3۔ سچائی   4۔ عدل وانصاف

 5۔قانون کا احترام کرنا               6۔ کسب حلال           7۔ایثار وقربانی کا جذبہ

رزائل اخلاق/اخلاق رزیلہ(انسان کی بری عادات):    1۔ جھوٹ 2۔ غیبت      3۔ منافقت          4۔ تکبر    5۔ حسد

*** ناجائز زرائع آمدن:            رشوت ستانی، بد دیانتی، سود خوری،چوری،ڈاکہ زنی ،ذخیرہ اندوزی، فریب دہی اور سٹے بازی یعنی جوا کھیلنا

س:پڑوسی کے حقوق کے متعلق ایک حدیث لکھیں؟

ج:٭ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیُکْرِمْ جَارَہُ :جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت  پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیئے کہ وہ اپنے پڑوسی کا احترام کرے (بخاری :6019)

    ٭           وہ شخص مومن نہیں جو اپنے ہمسائے کی بھوک سے بے نیاز ہوکر شکم سیر ہو

س:قرآن مجید میں مذکور نیک بیویوں کی  صفات تحریر کریں ؟

ج: فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ (سورۃ النساء: 34) ترجمہ:  پس جو نیک (بیویاں ) ہیں وہ   (1)خاوند کی اطاعت کرنے والی  اور(2)خاوند کی غیر موجودگی میں (اس کی عزت و مال کی) حفاظت کرنے والی  ہوتی ہیں۔

س:منافقت کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم بیان کریں ؟

لغوی: منافقت عربی زبان کے لفظ (نفق)سے نکلاہے جس سے مراد    دو  راستوں والا سوراخ یا بل ہے۔

اصطلاحی:منافق:وہ شخص جس نےدنیاوی مفاد کے حصول کی خاطر بظاہر تو اسلام  قبول کرلیاہو لیکن دل سے اسلا‏م کی حقانیت اور سچائی کو تسلیم نہ کرتا ہومنافق کہلاتا ہے ۔

منافقت:بظاہر اسلام قبول کرنے کا دعویٰ کرنا لیکن دل سے تصدیق نہ کرنا منافقت ہے۔ انسان کے ظاہر وباطن میں تضاد منافقت ہے۔

س: تکبر سے کیا مراد ہے ،اس کا مفہوم واضح کریں ، اور لکھیں کہ تکبر کس کو لائق ہے؟

ج:تکبر سے مراد اپنےآپ کو دوسروں کے مقابلے میں بڑا اور بلند مقام ومرتبہ والا سمجھنا ۔ بڑائی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لائق ہے۔

س:احرام کس کو کہتے ہیں ؟ مناسک حج سے کیا مراد ہے ، چار مناسک حج تحریر کریں ؟

ج: سفید رنگ کی دو      اَ ن سِلی چادروں پر مشتمل لباس جو حاجی دوران حج زیب تن کرتاہے احرام کہلاتا ہے۔

مناسک حج: سے مراد وہ افعال ہیں جو ایک حاجی دوران حج سر انجام دیتا ہے ۔

مناسک حج:۱۔طواف    ۲۔ حجر اسود کو بوسہ دینا    ۳۔قربانی کرنا   ۴۔ بال کٹوانا یا منڈوانا   ۵۔صفا و مروہ کی سعی کرنا۔

س:صلہ رحمی سے کیا مراد ہے ؟

صلہ رحمی سے مراد  رشتہ داروں سے تعلق اور رشتہ داری کو جوڑنا ہے۔

س: قیامت کے روز پہلا سوال کس بارے کیا جائے گا؟

ج: قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کے بارے سوال کیا جائےگا۔

س: یتیموں کی کفالت کے بارے نبی اکرم ﷺ کا کیا فرمان ہے ؟ حدیث لکھیں؟

ج: انا وکافل الیتم فی الجنۃ ھکذا (بخاری ومسلم)

 ترجمہ: میں(نبی مکرمﷺ) اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں یوں (آپ نے اپنی شہادت اور ساتھ والی انگلی کو جوڑ کر اشارہ فرمایا) اکٹھے ہوں گے

س:حج، زکوٰۃ، روزہ اور نماز کے متعلق ایک ، ایک آیت مع ترجمہ لکھیں؟

ج:1۔ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (سورۃ الروم: 31) ترجمہ: نماز قائم کرو اور شرک کرنے والوں میں نہ ہو جاو۔

2۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (سورۃ البقرۃ: 183)  ترجمہ: اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں ۔

3۔ وَ الَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ(سورۃ التوبۃ:34)    ترجمہ:اور وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ، تو آپ ان کو درد ناک عذاب کی اطلاع دے دیں۔

4۔ وَ  لِلّٰهِ  عَلَى  النَّاسِ   حِجُّ  الْبَیْتِ  مَنِ  اسْتَطَاعَ  اِلَیْهِ  سَبِیْلًاؕ (سورۃ آل عمران: 97)

   ترجمہ: لوگوں پر فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے بیت اللہ کا حج کریں ، جو بھی (بیت اللہ ) کی طرف سفر کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔

س: نماز کن کن چیزوں سے روکتی ہے ؟

ج: نماز بے حیائی ، فحاشی اور برے کاموں سے روکتی ہے ۔

س:مولفۃ القلوب یا تالیف قلب سے کیا مراد ہے ؟ اس سے کون لوگ مراد ہیں ؟

ج: کسی کی دل جوئی کرنا،حوصلہ بڑھانا    ، اس سے مراد وہ نو مسلم ہیں جو مالی لحاظ سے کمزور ہوں تو زکوٰۃ فنڈ سے ان کی امدادکی جائے گی۔

س: ایفائے عہد ، عدل وانصاف،احترام قانون  اور ایثار وقربانی کے بارے نبی مکرم ﷺ اور صحابہ کی زندگیوں سے ایک ایک واقعہ لکھیں؟

ج:دیکھیے ٹیکسٹ بک

س: جھوٹ اور سچ کی تعریف لکھیں؟

ج: سچ: جو بات جیسے ہو اس کو اسی حقیقت کے ساتھ بیان کرنا سچ کہلاتا ہے۔

جھوٹ: خلاف حقیقت بات کرنا /بتانا جھوٹ کہلاتا ہے۔

س:حسد سے کیا مراد ہے ؟ حسد کی مذمت بارے حدیث لکھیں؟

ج:لغوی: کسی کا زوال چاہنا

اصطلاحی:ایک انسان کا کسی دوسرے انسان کو اچھی حالت میں دیکھ کر جلنا اور دل میں خواہش کرنا کہ اس کے پاس جو نعمت ہے وہ چھن کر میرے پاس آجائے، یہ حسد کہلاتا ہے۔

س:کون جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا؟

  ج:والدین کا نافرمان

س: غیبت کے لیے کس چیز کی مثال دی گئی ہے ؟

ج: غیبت کرنے والا ایسے ہی جیسے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔

باب سوم

آیت : وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (سورۃ الانبیاء:107) ترجمہ: ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

آیت : لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ(سورۃ الاحزاب: 21) ترجمہ: بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی  میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔

س: رسول اکرم ﷺ نے نماز تراویح مسجد میں صرف تین دن کیوں ادافرمائی؟

ج:امت پر شفقت کی وجہ سے ، کیونکہ  رسول اکرم ﷺ کے ذہن مبارک میں یہ خیال آیا کہ کہیں نماز تراویح امت پر فرض نہ کر دی جائے۔

س: مسواک کے بارے رسول اکرم ﷺ کا کیا ارشاد ہے ؟

ج:” اگرامت کو دشواری نہ ہوتی تو میں انہیں ہر نماز سے پہلے مسواک  کرنے کا حکم دیتا” ( صحیح بخاری)

س: گذشتہ امتوں پر نافرمانی اور گناہوں کے سبب کیسے عذاب آئے؟

ج:           کسی قوم کی صورتیں (شکلیں) مسخ (تبدیل )کردی گئیں   ،               کسی پر طوفان کا عذاب آیا            ،               کسی کی بستی الٹ دی گئی

س: نبی اکرم ﷺ سے قبیلہ دوس کر طرف کس صحابی کو  بھیجا؟ اور کس مقصد کے لیے بھیجا؟

ج: حضرت طفیل بن عمرو  -دوسی رضی اللہ عنہ کو۔          تبلیغ اسلام کے مقصد سے

س: اسلام نے عورت کو کیسے عزت دی ؟

ج: اسلام نے عورت کے حقوق وفرائض کا تعین کیا اور اس کو ماں ، بیٹی اوربیوی   تینوں حیثیتوں سے عزت عطا کی۔

س:رسول اکرم ﷺ کی یتیموں پر شفقت کے بارے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا نے کونسا واقعہ بیان کیا؟

ج:دیکھیں ٹیکسٹ بک کا صفحہ نمبر: 50

س: رسول اکرم ﷺ بچوں کے لئے رحمت تھے اس بارے سیرت رسول ﷺ سے ایک واقعہ بیان کریں ؟

ج: دیکھیں ٹیکسٹ بک کا صفحہ نمبر: 51

س: رشتہ مواخات سے کیا مراد ہے ؟

ج:           رسول اللہ ﷺ مکہ سے ہجرت فرما کر جب مدینہ تشریف لےگئے تو وہاں آپ ﷺ نے مہاجرینِ مکہ اور انصارِ مدینہ  کے درمیان “رشتہ مواخاۃ “قائم کیا۔یعنی بھائی چارے کا رشتہ قائم کیا۔

اخوت:            “اخ” کا مطلب ہے “بھائی”        اخوت کا مطلب ہے”بھائی چارہ”،آپس میں بھائی بھائی بن جانا۔

س: تین غیر عرب صحابہ کرام کے نام لکھیں؟

ج: 1۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ 2۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ 3۔ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ

س: صبر کے لغوی اور اصطلاحی معانی تحریر کریں؟

ج:     لغوی معانی:برداشت کرنا،  روکنا

   اصطلاحی: اپنے نفس کو خوف اور گھبراہٹ سے روکنا اور حق کی راہ میں آنےوالی مصائب ، مشکلات اور تکالیف کو برداشت کرنا۔

س: رسول اکرم ﷺ کی زندگی سے صبرکی مثال دیں؟

ج: ٭نبی مکرم ﷺ ایک دن بیت اللہ کے پاس نماز ادا فرما رہےتھےکہ آپ  ﷺکی سجدہ کی حالت میں عقبہ بن ابی معیط نے ابوجہل کے اکسانے پر اونٹ کی اوجھڑی  آپ ﷺ کی پشت مبارک پر ڈال دی اور مشرکین زور زور سے ہنس کر مذاق اڑانے لگے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کو جب پتہ چلا تو انہوں نے فورا آکر آپ ﷺ سے اوجھڑی کو ہٹایا ،اور کفار کو بددعا دی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بیٹی صبر سے کام لو۔

٭ رسول اکرم ﷺ کا چچا ابولہب لوگوں کو کہتا کہ آپ ﷺ (معاذاللہ) دیوانہ  اور پاگل ہیں ، اسی طرح ابولہب کی بیوی “ام جمیل” آپﷺ کے راستے میں کانٹے بچھاتی  جس سے آپ ﷺ کے پاوں مبارک زخمی ہوکر لہو لہان ہو جاتے لیکن آپ نے کبھی ان کے لئے بدعا نہ کی۔

٭نبوت کے ساتوں سال محرم کے مہینے میں مشرکین مکہ نے آپ ﷺ کے خاندان بنو ہاشم کا بائیکاٹ کر کے شہر سے نکال دیا اور آپ ﷺ اپنے قبیلہ کے لوگوں کےساتھ تین سال تک شعب ابی طالب (ابو طالب کی گھاٹی)میں محصور (قید) رہے اس دوران  آپ ﷺ نے بہت تکالیف برداشت کیں اور صبر سے کا م لیا۔

س: استقلال کا مفہوم واضح کریں؟

ج:لغوی : استحکام  2۔ مضبوطی  

ج: ہر قسم کی مشکلات اور مصائب کے باوجود  حق  بات پر قائم اور ثابت قدم رہنا استقلال کہلاتا ہے۔

س: شعب ابی طالب میں محصوری سے کیا مراد ہے ؟

ج:مشرکین مکہ نے نبوت کے ساتویں سال محرم الحرام کے مہینہ میں نبی اکرم ﷺ اور آپ کے سارے خاندان سے بول چال اور لین دین بند کر دیا ، اس وجہ سے بنو ہاشم کا پورا خاندان تین سال تک مکہ شہر سے باہر ایک پہاڑ کی گھاٹی (جس کو شعب ابی طالب کہاجاتاتھا) میں محصور رہا۔

س:ذکر الہی کی اقسام تحریر کریں اور لکھیں کہ افضل ذکر کون سا ہے ؟

ج:           ۱۔قلبی ذکر                           ۲۔قولی/لسانی ذکر                 ۳۔فعلی /عملی ذکر

ج:ذکر کی افضل ترین شکل نماز ہے            اور  افضل ترین ذکر   : لا الہ الا اللہ  ہے۔

س:ذکر کے لغوی اور اصطلاحی معانی لکھیں؟ نیز بتا ئیں کہ کس چیز سے  دلوں کو اطمینان ملتا ہے؟ ذکر کے بارے ایک قرآنی آیت ؟

ج:لغوی: یاد کرنا – — اصطلاحی : اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو اطمئنان ملتاہے۔

آیت : اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُؕ (سورۃ الرعد: 28) ترجمہ: آگاہ رہو! اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتاہے۔

س:تسبیح فاطمہ سے کیا مرادہے ؟

ج:وہ کلمات جو  نبی مکرم ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ کو سکھلائے تھے ،1۔   ۳۳بار سبحان اللہ ،2۔  ۳۳  بار الحمدللہ ،3۔   ۳۴ بار اللہ اکبر

س:اخوت اور بھائی چارہ کے متعلق قرآن مجیدکی آیت مع ترجمہ تحریر کریں؟

ج: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ (الحجرات:10)      بے شک جو مومن ہیں وہ آپس میں بھائی بھائی ہیں

س:نبی اکرم ﷺ کی زندگی سے مساوات اور ایفائے عھد کی ایک ایک مثال لکھیں؟

ج:ایفائے عھد: آپ ﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقعہ پر حضرت ابوجندل رضی اللہ عنہ کو اسلام قبول کر لینے کے باوجود صرف وعدہ کی پاسداری کرتے ہوئے اہل مکہ کے حوالے کر دیا۔

مساوات: آپ ﷺ نے مسجد قبا اور مسجد نبوی کے تعمیر کے وقت اور غزوہ احزاب کے موقعہ پر خندق کھودنے میں صحابہ کرام کے ساتھ مل کر کام کیا۔

مساوات: آپ ﷺ نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید سے کر دی۔

س:عفو سے کیا مراد ہے ؟ اس کے لغوی اور اصطلاحی معانی تحریر کریں ؟

ج:لغوی: معاف کرنا ،درگزر کرنا

اصطلاحی تعریف:کسی کی غلطی یا جرم کو بدلہ لینے کی طاقت ہونے کے باوجود معاف کر دینا عفو کہلاتا ہے۔

س: رسول اللہ ﷺ کی عبادت کے بارے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے کیا واقعہ بیان کیا؟

ج: حضرت عائشہ  رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں نبی اکرم ﷺ رات کو نماز کے لیے اتنا لمبا قیام کرتے کہ آپ ﷺ کے پاوں مبارک سوج جاتے ،میں نے عرض کی آپ کےلیے اللہ تعالیٰ نے  جنت لکھ دی ہے پھر آپ ﷺ اتنی مشقت کیوں کرتےہیں تو آپ ﷺ نے جواب  دیا کہ کیامیں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟؟

س: رسول اللہ ﷺ کی زندگی مبارک سے عفو ودرگزر کے متعلق واقعہ قلمبند کریں ؟

ج: واقعہ طائف: نبی اکرم ﷺ جب وادی طائف میں تبلیغ اسلام کے سلسلے میں گئے تو وہاں کے سرداروں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کرنے کے ساتھ ساتھ آپﷺ کے پیچھے کچھ لوگوں کو لگا دیا جنہوں نے آپ  ﷺ پر پتھر برسائے اورآپ ﷺ کا جسم مبارک لہولہان ہوگیا،جوتے خون سے تر ہوگئے ۔شہر سے باہر آکر آپ ﷺ ایک باغ میں تشریف فرما تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور عرض  کی کہ اگر آپ حکم دیں تومیں ان لوگوں کو بستی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے رحمت بنا کر بھیجاگیا ہے یوں آپ ﷺ نے ان سے بدلہ لینے کی بجائے ان کے لیے دعا کی۔

بچوں پر رحمت: ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے پیار فرما رہے تھے کہ پاس بیٹھے شخص اقرع بن حابس نے کہا کہ میرے تو دس بیٹے ہیں میں نےکبھی کسی سے یوں پیار نہیں کیا ، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: من لایَرحم لا یُرحم (جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیاجاتا)

حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ  غزوہ موتہ میں شہید ہوئے، حضرت اسماء بنت عمیس ، حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ  کی بیوی تھیں۔

س: قرآن کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کریں ؟ قرآن کے اندر قرآن کتنے نام ذکر کئے گئے ہیں ؟

ج:لغوی: لفظ قرآن “قراء یقراء قراءۃ” سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں پڑہنا، لفظ قرآن کا لغوی مطلب ہے :بہت زیادہ پڑھی  جانے والی کتاب

اصطلاحی : قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے ، واضح عربی زبان میں ، حضرت محمد ﷺ پر تقریبا 23 سال کے عرصہ میں نازل ہوا۔

س: قرآن کریم کے صفاتی نام لکھیں؟

ج:ذاتی نام : 1۔الکتاب ۔ 2۔الفرقان ۔ 3۔ نور ۔ 4۔ شفاء  ۔   5۔تذکرہ ۔ 6۔العلم  ۔7۔البیان

صفاتی نام: 1۔ حکیم  ۔   2۔ مجید 3۔مبارک ۔ 4۔ العزیز ۔ 5۔ مبین ۔6۔کریم

س: قرآن کریم کی ترتیب نزولی اور ترتیب توقیفی سے کیا مراد ہے ؟

ج:ترتیب نزولی سے مراد قرآن کریم کی وہ ترتیب ہے جس ترتیب سے قرآن کریم کی آیات اور سورتیں نازل کی گئیں۔

ترتیب توقیفی : سے مراد قرآن کی آیات اور سورتوں کی  وہ خاص ترتیب ہے جو نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی میں  لگائی۔ قرآن کی موجودہ ترتیب توقیفی ہی ہے ۔

س: حدیث کے لغوی اور اصطلاحی معانی لکھیں ؟

ج:لغوی: 1۔ بات چیت 2۔ گفتگو 3۔ نئی چیز/نئی بات

اصطلاحی : نبی اکرم ﷺ کے اقوال ، افعال اور تقریرات کو حدیث کہا جاتا ہے۔

س: حجۃ الوداع اور خطبہ حجۃ الوادع سے کیا مراد ہے ؟

 نبی مکرم ﷺ نے آخری حج دس ہجری میں ادا کیا ، اس حج کو حجۃ الوداع (الوداعی حج)کہا جاتا ہے۔ اس حج میں آپ نے عرفات کے میدان میں ایک خطبہ ارشاد فرمایاجس کو خطبہ حجۃالوداع کہا جاتا ہے۔

٭ آیت کے معنی ہیں “نشانی ” ۔ قرآن کریم کے ایک جملے کو آیت کہا جاتا ہے۔

٭ سورۃ کے معنی ہیں “نمایاں جگہ” ، ” چاردیواری والی جگہ” ۔ قرآن کریم کے ایک باب کو سورۃ کہا جاتاہے۔

٭ مسلمانوں کی کفار سے سب سے پہلی باقاعدہ جنگ “غزوہ بدر” اور سب سے آخری جنگ “غزوہ تبوک” کہلاتی ہے۔

٭ نبی مکرم ﷺ کی عمر مبارک تریسٹھ (63) برس ہے ، آپ نے مکہ میں 53 سال اور مدینہ میں 10 سال بسر کئے ،آپ ﷺ کو 40 سال کی عمر میں نبوت عطا کی گئی یوں نبوت والی عمر 23 سال بنتی ہے جس  میں سے 13 سال آپ ﷺ نے مکہ میں بسر کئے اور 10 سال مدینہ میں ۔

س: تدوین کے کیا معانی ہیں؟ تدوین قرآن سے کیامراد ہے ؟ تدوین حدیث سے کیا مراد ہے ؟

ج: کسی چیزکو ترتیب کے ساتھ لکھ کر محفوظ کرنا تدوین  کہلاتا ہے۔

تدوین قرآن : قرآن کریم کو ترتیب کے ساتھ لکھ کر محفوظ کر لینا ،  تدوین قرآن کہلاتا ہے۔

تدوین حدیث: احادیث کو ایک خاص ترتیب سے لکھ کر محفوظ کر لینا ، تدوین حدیث کہلاتا ہے۔

س: تدوین قرآن کے کتنےاور کون کون سے ادوار ہیں؟   

ج:تدوین قرآن کے 3 ادوار ہیں :

 1۔ عھد نبوی(نبی اکرم ﷺ کا دور)            2۔ عھد صدیقی (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دور)        3۔ عھد عثمانی(حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دور)

س: تدوین حدیث کے کتنے اور کون کون سے ادوار ہیں؟

تدوین حدیث  کے 3 ادوار ہیں :     1۔ پہلی صدی ہجری  (نبی مکرمﷺ اور صحابہ کرام کا دور)

2۔ دوسری صدی ہجری (اس دور کا آغاز حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒکی خلافت سے ہوتاہے)

 3۔ تیسری صدی ہجری  (محدثین کا دور ،اس کے اختتام تک تمام احادیث باقاعدہ کتب کی شکل میں ترتیب کے ساتھ لکھ لی گئی تھیں، محدثین نے تمام مسلم علاقوں کے سفر کیے اور جس جس عالم سے احادیث ملیں ان کو ایک جگہ جمع کر کے ہزاروں صفحات پر مشتمل کتب تالیف فرمائیں)

س:حضرت ابو بکر صدیق کے دور میں کس صحابی نے قرآن مدون کیا ؟

ج: حضرت زید بن ثابت ؓ نے ، ان کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔(حضر ت عثمان غنی کے دور میں بھی ان ہی کی ڈیوٹی  لگائی گئی تھی)

٭ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں مسلمانوں کی جنگ مسیلمہ کذاب سے ہوئی جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔

س: قرآن مجید کی کتابت ابتدائی طور پرکن چیزوں پرکی جاتی تھی ؟

ج: 1۔ پتھر کی سلوں /سلیٹوں پر  2۔ کھجور کے پتوں پر 3۔ اونٹ کے شانے کی ہڈی پر 4۔ کھال کی جھلی پر 5۔ کپڑوں پر۔

س: کاتبین وحی کی تعداد کتنی ہے ، کاتبین وحی کے نام ؟

ج: کاتبین وحی کی تعدادتقریباچالیس ہے،      ۱۔حضرت ابوبکر صدیق  ۲۔حضرت عمر فاروق ۳۔حضرت عثمان غنی۴۔حضرت علی المرتضیٰ۵۔حضرت زید بن ثابت ۶۔حضرت امیر معاویہ۷۔حضرت ابی بن کعب ۸۔عبداللہ بن ابی سرح(مکہ میں پہلے قریشی کاتب وحی) ۹۔حضرت زبیر ۱۰۔حضرت عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنھم اجمعین

س:حدیث نبوی ﷺ کی تین اقسام : قولی حدیث ، فعلی حدیث اور تقریری حدیث کی تعریف کریں اور ہر ایک کی مثال بھی دیں ؟

ج: قولی حدیث : نبی مکرم ﷺ کے اقوال و  فرامین کو قولی حدیث کہا جاتا ہے ۔مثال: انما الاعمال بالنیات۔

فعلی حدیث: نبی مکرم ﷺ کے افعال واعمال کو فعلی حدیث کہا جاتاہے۔مثال: 1۔ نبی مکرم ﷺ جب گھر تشریف لے جاتے تو گھر والوں کو سلام کہتے۔

تقریری حدیث: ایسا کام جو نبی مکرم ﷺ کی موجودگی میں کیا گیا تو یا تو آپ ﷺ نے اس کی تعریف فرما دی ہو ، یا کم از کم اس کے کرنے سے منع نہ فرمایا ہو ، وہ تقریری حدیث کہلاتا ہے۔جیسے ایک صحابی نماز فجر کی جماعت کے بعد کھڑے ہو کر نماز پڑہنے لگے تو آپ نے پوچھا اب کیا کرنے لگے ہو تو صحابی نے جواب دیا کہ میری پہلی دو سنتیں رہ گئیں تھیں ،وہ اب ادا کرنے لگا ہوں تو آپ ﷺ خاموش ہو گئے۔

س:خطبہ حجۃ الوداع میں نبی اکرم ﷺ نے جن باتوں کا حکم دیا ان میں سے ۵ کے نام لکھیں؟

1۔غلاموں کے حقوق،2۔قومیت اور برادری ازم  سے سختی سے منع فرمایا،3۔عورتوں کے حقوق،  4۔سود لینے دینے سے روکا، 5۔آپس کی لڑائی جھگڑے کی ممانعت، 6۔مال کی حرمت، 7۔جان کی حرمت،8۔عزت وآبرو کی حرمت، 9۔عزت کا معیار صرف اور صرف تقویٰ کو قرار دیا۔

س:قرآن مجید کی خصوصیات  / خوبیاں لکھیں؟

ج:  *آخری کتاب         *محفوظ کتاب         *زندہ زبان والی کتاب          *عالمگیر کتاب           *جامع کتاب

*عقل وتہذیب کی تائید کرنے والی کتاب     *کتاب اعجاز

س: پہلی وحی کہاں نازل ہوئی ، پہلی وحی کی آیات لکھیں اور بتائیں وہ کتنی آیات ہیں؟

ج:پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی ، پہلی وحی کی آیات کی تعداد 5 ہے ، یہ سورۃ العلق کی پہلی آیات ہیں ، سورۃ العلق قرآن کے آخری پارے میں ہے۔

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ[1] خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ[2] اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ[3] الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ[4] عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ[5] سورۃ العلق: 1 تا 5 )

ترجمہ: اپنے رب کے نام سے پڑھ جس نے پیدا کیا۔ [1] اس نے انسان کو ایک جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ [2] پڑھ اور تیرا رب ہی سب سے زیادہ کرم والا ہے۔ [3] وہ جس نے قلم کے ساتھ سکھایا۔ [4] اس نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ [5]

٭ نبی مکرم ﷺ نے وحی کی آمد کا تذکرہ سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ سے کیا اور انہوں نے آپﷺ کو تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کو ضرور کامیاب کریں۔

س:قرآن مجید کی طویل ترین اور مختصر ترین سورت کون سی ہے؟

 ج:قرآن کریم کی طویل ترین سورۃ کا نام “سورۃ البقرۃ” ہے۔ اور مختصر ترین سورۃ کا نام ” سورۃ الکوثر ” ہے۔

س:قرآن مجید میں کتنے پارے ، سورتیں ، منازل ، رکوع اور آیات ہیں ؟

ج:پارے : 30 ، سورتیں : 114 ، منازل/منزلیں : 07  ،( رکوع: درست تعداد: 558 / مشہور  غلط تعداد: 540)،   آیات: درست تعداد: 6236/ مشہورغلط  تعداد: 6666

س: مکی اورمدنی سورتوں کی تعداد واضح کریں؟ اور مکی ومدنی سورتوں کی پانچ ، پانچ خصوصیات لکھیں؟

ج:مکی سورتوں کی تعداد: 86 ہے اور مدنی سورتوں کی تعداد 28 ہے۔

مکی اور مدنی سورتوں میں فرق: رسول اللہ ﷺ کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے جو سورتیں نازل ہوئیں وہ سورتیں مکی کہلاتی ہیں اور ہجرت کے بعد جو سورتیں نازل ہوئیں وہ مدنی کہلاتی ہیں۔

مکی سورتوں کی خصوصیات:

1۔ مکی سورتیں مختصر ہوتی ہیں۔

2۔ مکی سورتوں کی آیات بھی مختصر ہوتی ہیں ۔

3۔ مکی سورتوں میں عقائد(توحید، رسالت اور عقیدہ آخرت) کی اصلاح پر زیادہ توجہ دی گئی ہے ۔

4۔ مکی سورتوں کی زبان مشکل اور انداز شعری ہے ۔

5۔ مکی سورتوں میں ” یا ایھا الناس ” کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے ۔

6۔ مکی سورتوں میں صبر کی تلقین کی  گئی ہے۔

مدنی سورتوں کی خصوصیات:

1۔ مدنی سورتیں طویل ہوتی ہے اور مدنی سورتوں کی آیات بھی طویل ہوتی ہیں۔

2۔ مدنی سورتوں کی زبان آسان اور سادہ ہے۔

3۔ مدنی سورتوں میں عبادات کی فرضیت اور دیگر احکام وتفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

4۔ مدنی سورتوں میں  معاشرتی ، معاشی اور سیاسی مسائل  کی تعلیم دی گئی ہے۔

5۔ مدنی سورتوں میں ” یا ایھا الذین اٰمنوا” کہ کر خطاب کیا گیاہے۔

6۔ مدنی سورتوں میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔

7۔مدنی سورتوں میں عدل وانصاف کرنے کا حکم دیا گیاہے ۔

8۔ مدنی سورتوں میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

س: کس غزوہ کے بعد مدینہ میں لکھنے والوں کی تعدا د میں اضافہ ہو گیا

ج: غزوہ بدر کے بعد

س:صحیفہ ہمام بن منبہ کے مخطوطے کن شہروں میں موجود ہیں ؟

ج: ایک مخطوطہ “برلن” میں ہے جبکہ دوسرا مخطوطہ “دمشق” میں ہے۔

س: نبی مکرم ﷺ نے کس صحابی سے قرآن کریم کی تلاوت سنانے کی فرمائش کی ؟

ج: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سےاور انہوں نے سورۃ النساء کی چند آیات کی تلاوت فرمائی ۔

س:صحاح ستہ اور اصول اربعہ س کیا مراد ہے ؟

ج: صحا ح ستہ سے مراد حدیث کی مستند ترین چھ کتابیں ہیں ۔

اصول اربعہ سے مراد اہل تشیع کی (فقہ جعفریہ کی)  چار بنیادی کتا بیں ہیں۔

س: صحاح ستہ کی کتب اور ان کے مولفین کے نام لکھیں؟ (پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتاب کا صفحہ : 67)

س: اصول اربعہ کی کتب اور ان کے مولفین کے نام لکھیں؟(پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتاب کا صفحہ : 67)

س:صحابہ کرام کے صحیفوں کے نام  اورجمع کرنے والو ں کے نام لکھیں ؟

ج:1۔ صحیفہ صادقہ : حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ۔

2۔حضرت علی المرتضیٰ کا صحیفہ: اس میں احکام ومسائل درج تھے۔

3۔حضرت ابو ہریرہ کا صحیفہ ، اس کو صحیفہ ہمام بن منبہ ” بھی کہا جاتا ہے۔  حضرت ہمام بن منبہ ، حضرت ابو ہریرہ کے شاگرد ہیں۔

س: حضرت عمر بن عبدالعزیز کون تھے ، ان کادور کہا ں سے شروع ہوتا ہے ؟

ج:حضرت عمر بن عبدالعزیز مسلمانوں کےخلیفہ/ حکمران تھے ، ان کا دور خلافت 99ھ سے شروع ہوتاہے۔   (یہ دور تدوین حدیث کا دور ثانی کہلاتا ہے۔)

س: تدوین حدیث کے دور ثانی میں کس کس امام نے احادیث کو جمع کرنے کا کام کیا اور  کون کون سی کتب وجود میں آئیں؟

 تدوین حدیث کے دور ثانی میں :

-مدینہ میں امام زہری نے احادیث کتابی شکل میں لکھیں۔

-کوفہ میں امام شعبی نے احادیث کتابی شکل میں جمع کیں۔

-شام  میں امام مکحول نے احادیث قلم بند کیں۔

اسی طرح  اس دور میں امام ابو حنیفہ کی کتاب “الآثآر “

      امام مالک کی کتاب “الموطا”  

اور               امام سفیان ثوری کی کتاب “جامع” معرض وجود میں آئی۔

س:حدیث قدسی سے کیا مراد ہے ؟

ج: وہ حدیث جس کی سند  اللہ تعالٰی تک پہنچتی ہو ، اوراس میں نبی اکرم ﷺ قرآن مجید کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا پیغام اپنے الفاظ میں یا اللہ تعالیٰ کے ہی الفاظ میں بیان کریں۔

علامہ اقبال ؒ نے اپنی نظم جواب شکوہ میں مسلمانوں کی پستی کا واحد سبب قرآن سے علیحدگی اوراس کی تعلیمات سے  دوری قرار دیا ہے ۔

س: قرآنی آیات اور احادیث کا ترجمہ۔

ج:ٹیکسٹ بک کے آخر میں دیا گیا ترجمہ یاد کیجیے۔

سوالیہ پیپر میں نمبروں کی تقسیم:

کثیر الانتخابی سوالات(10سوالات) : دس نمبر

مختصر جوابات  کے  سوالات(ہر سوال کے 2 نمبر)[چھ ، چھ] : چوبیس نمبر

تفصیلی سوالات — دو : (ہر سوال کے 8 نمبر) سولہ نمبر

کل نمبر : پچاس

#Islamic #Education #Inter #Part #First #Islamiat #Lazmi #DrRizwanAli #DrRizwanOnline #DrRizwanAli.com

Hazrat Bilal R.A. DrRizwanAli.com

Hazrat Bilal R.A: The Companion of Hazrat Muhammad PBUH

Introduction

Hazrat Bilal ibn Rabah (R.A.) is one of the most revered figures in Islamic history. Known for his unwavering faith, resilience, and devotion, Bilal’s journey from slavery to becoming the first Mu’azzin (caller to prayer) of Islam is both inspiring and exemplary. This blog aims to provide a detailed and well-explained biography of Hazrat Bilal R.A., highlighting his significant contributions and the profound impact he had on the early Muslim community.

Early Life

Bilal ibn Rabah was born around 580 CE in Mecca

1. His father, Rabah, was an Arab, while his mother, Hamamah, was an Abyssinian princess who was captured and enslaved

1. Bilal was born into slavery, which was a common practice in Mecca at the time. Despite his status, Bilal’s character and integrity were evident from a young age.

Conversion to Islam

Bilal’s life took a dramatic turn when he embraced Islam. He was among the earliest converts, accepting the message of Prophet Muhammad (PBUH) despite the severe persecution faced by Muslims. His conversion was a testament to his strong belief in the principles of Islam and his unwavering faith in Allah.

Persecution and Endurance

As a slave, Bilal faced brutal persecution from his master, Umayyah ibn Khalaf, who was vehemently opposed to Islam

2. Bilal was subjected to extreme torture, including being dragged through the streets of Mecca and placed under heavy rocks in the scorching desert sun. Despite these hardships, Bilal remained steadfast in his faith, repeatedly proclaiming “Ahad, Ahad” (One, One), signifying his belief in the oneness of Allah

2.

Freedom and Role in the Muslim Community

Bilal’s suffering came to an end when Abu Bakr (R.A.), a close companion of Prophet Muhammad (PBUH), purchased his freedom

3. Bilal’s liberation marked the beginning of his significant contributions to the Muslim community. He was appointed by Prophet Muhammad (PBUH) as the first Mu’azzin, chosen for his deep, melodious voice to call the faithful to prayer

3. This role was not only a recognition of Bilal’s devotion but also a symbol of the inclusivity and equality promoted by Islam.

Legacy and Death

Bilal continued to serve the Muslim community with dedication. He accompanied Prophet Muhammad (PBUH) in various battles and was present during pivotal moments in Islamic history. After the Prophet’s death, Bilal moved to Syria, where he continued his service until his own death in 640 CE

1. Bilal’s legacy as a symbol of faith, resilience, and devotion remains deeply ingrained in Islamic history.

Conclusion

Hazrat Bilal ibn Rabah (R.A.) is a shining example of the transformative power of faith and the principles of equality and justice in Islam. His journey from slavery to becoming the first Mu’azzin is a testament to his unwavering belief and dedication. Bilal’s story continues to inspire Muslims around the world, reminding us of the importance of perseverance, faith, and the pursuit of justice.

#HazratBilal #TheCompanion #ProphetMuhammadPBUH #LifeStory #Seerat #IslamicHistory

Diabetes

10 things we must know about Diabetes

Here are 10 important things to know about diabetes:

  1. Types of Diabetes: There are three main types: Type 1, Type 2, and gestational diabetes.
  2. Prevalence: Over 37 million people in the United States have diabetes.
  3. Causes: Type 1 diabetes is an autoimmune condition, while Type 2 diabetes is often linked to lifestyle factors such as obesity and inactivity.
  4. Symptoms: Common symptoms include excessive thirst, frequent urination, hunger, fatigue, and blurred vision.
  5. Complications: If left uncontrolled, diabetes can lead to heart disease, stroke, kidney disease, nerve damage, and vision loss.
  6. Management: Type 1 diabetes requires daily insulin injections, while Type 2 diabetes can often be managed with lifestyle changes and medication.
  7. Prevention: Type 2 diabetes can often be prevented through healthy eating, regular exercise, and maintaining a healthy weight.
  8. Screening: Regular screening is important, especially if you have risk factors such as a family history of diabetes.
  9. Diet: Eating a balanced diet, including foods like oatmeal, can help manage and prevent diabetes.
  10. Education: Participating in diabetes education programs can significantly improve health outcomes for those with diabetes.

The best diet for diabetics focuses on maintaining stable blood sugar levels while providing balanced nutrition. Here are some key elements to consider:

  1. Healthy Carbohydrates: Choose whole grains, fruits, vegetables, legumes (beans and peas), and low-fat dairy products. These foods have a lower glycemic index and help maintain steady blood sugar levels.
  2. Fiber-Rich Foods: Incorporate plenty of dietary fiber from sources like vegetables, fruits, whole grains, and legumes. Fiber helps control blood sugar levels and promotes overall digestive health.
  3. Healthy Fats: Opt for unsaturated fats found in foods like avocados, nuts, seeds, and olive oil. These fats are beneficial for heart health.
  4. Lean Proteins: Include lean protein sources such as fish, poultry, tofu, and legumes. Fatty fish like salmon and sardines are particularly good due to their omega-3 fatty acids.
  5. Limit Added Sugars and Refined Carbs: Avoid sugary drinks, sweets, and highly processed foods. These can cause rapid spikes in blood sugar levels.
  6. Regular Meals: Eat at regular intervals to help your body use insulin more effectively. This can help prevent blood sugar spikes and dips.
  7. Hydration: Drink plenty of water and avoid sugary beverages. Staying hydrated is important for overall health and can help manage blood sugar levels.
Introduction to Surat Yusuf

Introduction to Surat Yousuf A.S.

سورۃ #یوسف#

#SuratYousuf

سورۃ یوسف قرآن مجید کی بارہویں سورۃ ہے اور اس میں 111 آیات ہیں۔ یہ سورۃ مکی ہے اور اس میں حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔

اہم مضامین

حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب : سورۃ کی ابتدا حضرت یوسف کے خواب سے ہوتی ہے جس میں وہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند کو اپنے سامنے سجدہ کرتے دیکھتے ہیں۔

بھائیوں کی سازش: حضرت یوسف کے بھائی ان سے حسد کرتے ہیں اور انہیں کنویں میں ڈال دیتے ہیں۔

مصر میں غلامی: حضرت یوسف کو مصر کے بازار میں فروخت کیا جاتا ہے اور وہ عزیز مصر کے گھر میں رہنے لگتے ہیں۔

زلیخا کا واقعہ: عزیز مصر کی بیوی زلیخا حضرت یوسف کو بہکانے کی کوشش کرتی ہے لیکن حضرت یوسف پاکدامنی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

قید خانہ: حضرت یوسف کو بے گناہ قید میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں وہ قیدیوں کے خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں۔

بادشاہ کا خواب: مصر کے بادشاہ کا خواب اور حضرت یوسف کی تعبیر جس کے نتیجے میں وہ مصر کے خزانے کے نگران بن جاتے ہیں۔

بھائیوں کی ملاقات: قحط کے دوران حضرت یوسف کے بھائی اناج لینے مصر آتے ہیں اور حضرت یوسف انہیں پہچان لیتے ہیں۔

خاندان کی مصر آمد: آخر میں حضرت یوسف اپنے والد حضرت یعقوب اور خاندان کو مصر بلا لیتے ہیں۔

سورۃ یوسف میں ایک خاص دعا ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام نے کی تھی۔ یہ دعا سورۃ یوسف کی آیت نمبر 101 میں موجود ہے:

“رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ”

میرے پروردگار ! تو نے مجھے حکومت سے بھی حصہ عطا فرمایا ، اور مجھے تعبیر خواب کے علم سے بھی نوازا ۔ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ! تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا رکھوالا ہے ۔ مجھے اس حالت میں دنیا سے اٹھانا کہ میں تیرا فرمانبردار ہوں ، اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کرنا ۔

My Lord, You have given me [something] of sovereignty and taught me of the interpretation of dreams. Creator of the heavens and earth, You are my protector in this world and in the Hereafter. Cause me to die a Muslim and join me with the righteous.”

سورۃ یوسف میں دور حاضر کے نوجوانوں کے لیے کئی اہم نصیحتیں موجود ہیں

صبر اور استقامت: حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیا، لیکن انہوں نے ہمیشہ صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ نوجوانوں کو بھی مشکلات کے وقت صبر کرنا چاہیے اور اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔

پاکدامنی: حضرت یوسف نے زلیخا کی طرف سے آنے والی آزمائش میں پاکدامنی کا مظاہرہ کیا۔ یہ واقعہ نوجوانوں کو سکھاتا ہے کہ وہ اپنی اخلاقی حدود کا احترام کریں اور برے کاموں سے بچیں۔

علم اور حکمت: حضرت یوسف کو خوابوں کی تعبیر کا علم عطا کیا گیا تھا۔ نوجوانوں کو علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے محنت کرنی چاہیے۔

اللہ پر بھروسہ: حضرت یوسف نے ہر مشکل وقت میں اللہ پر بھروسہ رکھا اور اللہ نے انہیں کامیابی عطا کی۔ نوجوانوں کو بھی اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔

خاندان کی اہمیت: حضرت یوسف نے اپنے والد اور بھائیوں کے ساتھ محبت اور احترام کا مظاہرہ کیا۔ نوجوانوں کو اپنے خاندان کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش آنا چاہیے۔

—ڈاکٹر رضوان علی—

Prophet Muhammad SAW

Hazrat Muhammad SAW as a Messenger of Peace and Reconciliation

Prophet Mohammad Muhammad PBUH messenger of peace

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نبی مکرم ﷺ پیغمبر امن

آقائے کائنات ، نبی مکرم ، تاجدار مدینہ ، سرور قلب و سینہ ، احمد مجتبیٰ ، محمد مصطفیٰ ﷺ کا پیش کردہ دین اپنے ماننے والوں کو جملہ شعبہ ہائے حیات کے لئے مکمل  ، خیر خواہانہ اور قابل عمل تعلیمات اور ضوابط مہیا کرتا ہے ۔دین اسلام جو امن سلامتی ، رافت ونرمی اور عفو ودرگزر سے عبارت ہے درحقیقت ایک عالم گیر اور ہمہ گیر منشور حیات ہے ۔ اسلام کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ تاریخ انسانی ، انسانیت کے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام  جو پہلے انسان تھے وہی پہلے نبی اور مسلم ٹھہرے۔ ان کے دور میں اسلام ابتدائی حالت میں تھا یعنی نوعمر تھا آپ کے بعد جتنے بھی انبیاء کرام آئے انہوں نے اس اسلام ہی کی دعوت پیش کی حتیٰ کہ نبی مکرم ﷺ کو بنی نوع انسان کی رہبری اور راہ ہدایت و حق کی طرف دعوت دینے کی ذمہ داری سونپ دی گئی، آپ پر اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی تعلیمات کو تکمیلی صور ت میں نازل فرمایا ۔ امت محمدیہ اس لحاظ سے خوش نصیب ٹھہری کہ اس کا ہادی اور رہبر و رہنما تمام رہنماوں سے اعلیٰ اور ان کے لئے نازل ہونے والی شریعت سابقہ تمام شرائع سے افضل ، اعلیٰ ، مکمل اور جامع شریعت ہے ۔ تکمیلی صورت میں نازل ہونے والا دین اسلام (شریعت محمدیہ ) نے سابقہ تمام ادیان ومذاہب (یہودیت وعیسائیت سمیت) کو منسوخ کر دیا ۔ کیونکہ اس میں سابقہ ادیان کی تعلیمات کو ضروری اضافوں اور تکمیلی صورت دے کر نازل کر دیا گیا ہے ۔

نبی مکرم ﷺ نے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہدایت نامہ اس وقت کے کفار ، مشرکین اور یہود ونصاریٰ کے سامنے رکھا اور فاران کی چوٹیوں پر کھڑے ہو کر دین اسلام کی دعوت کا آغاز کیا تو یہود ونصاریٰ اور دیگر کفار و مشرکین رفتہ رفتہ دین اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے اور کچھ لوگوں نے اس کو نئی چیز کہ کر ماننے سے انکار کر دیا لیکن آپ ﷺ کی مخالفت بھی نہ کی لیکن ایک خاص گروہ ایسا بھی تھا جس نے آپ ﷺ کی دعوت کو ماننے سے انکار کرنے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی مخالفت کو اپنا منشور اور مشن بنا لیا جس کے بڑے اسباب: جہالت ، ہٹ دھرمی ، لسانی ، قبائلی و خاندانی تعصب اور غرور وتکبر ہیں ، جن کی وجہ سے اس دور کے بے دین ،مشرک اور یہود ونصاریٰ کے ایک مخصوص مشنری گروہ نے اسلام قبول کرنے کے بجائے حضرت محمدالرسول اللہ ﷺ ، قرآن اور دین اسلام کی تعلیمات پر اعتراضات کرنا شروع کر دیئے اور بغض و عناد کی بناء پر ان کی زبانیں زہر اگلنا شروع ہوئیں ، جوں جوں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اس گروہ کے بغض وعناد اور غیظ وغضب میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور اس بے جا مخالفت کا سلسلہ نسل در نسل چلتا رہا جو آج تک جاری ہے ۔

آج بھی اگر اطراف عالم میں نگاہ دوڑائی جائے تو اس علم رنگ وبو میں وقوع پذیر ہونے والے حوادث اور واقعات میں سے ایک انتہائی دردناک اور الم ناک منظر وہ ہے جس میں صلیبی ، یہودی لابی اور سیکولر طبقہ اس کائنات کے محسن اعظم حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ومقدس ، آپ کی تعلیمات اور مسلمانوں کے بارے ہتک آمیز باتیں کرتے اورتوہین آمیز رویہ اختیار کئے ہوئے ہے ۔ کبھی میڈیا پر یہودی لابی اپنی کمینگی ، گھٹیا پن اور اسلام سے حسدو عناد کو ثابت کرتے ہوئے آقا دوجہاں کی ذات اقدس پر مختلف اعتراضات کرتی اور جنگ وجدل کا داعی قرار دیتی ہے تو کبھی آپ کی تعلیمات کو ارہاب ودہشت گردی کی تعلیمات اور ان پر عمل کرنے والوں کو  بنیاد پرست ، دہشت گرد ، جنونی اور انتہا پسند جیسے القابات دے کر ان کی ہتک  کر کے خوشی محسوس کی جاتی ہے ۔یہ سب کچھ ان لوگوں کے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف بغض وعناد کی علامت ہے اور درحقیقت یہ لوگ مشرق اور بالخصوص یورپ و امریکہ میں اسلام کی مقبولیت سے خوف زدہ اورکبیدہ خاطر ہیں۔

یہ بات کسی قسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ محسن انسانیت حضرت محمد الرسول ﷺ کی دعوت سراسر امن وآشتی اورتمام انسانوں کی فوز وفلاح اور کامیابی و کامرانی کی دعوت ہے اور آپ ﷺ کے ماننے والے آج بھی امن عالم کے لئے کوشاں اور خواہاں ہیں۔

کوئی بھی تاریخ کا طالب علم ( وہ مسلمان ہو ، مسیح ہو یا کوئی اور) اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ پیغمبر امن حضرت محمد ﷺ نے نا انصافی ، ظلم وزیادتی اور صدیوں سے جاری جنگ وجدل کے خلاف آواز بلندکر کے ایک ایسا بے مثال انقلاب برپا کیا جس کی مثال آج تک تاریخ انسانی پیش کرنے سے قاصر ہے ۔

آج سے تقریبا 1450 سال قبل جب

یہ ساری دنیا گمراہی کی گہری دلدل میں پھنسی ہوئی تھی

ہر طرف ظلم وتشدد اور جور وستم کا بازار گرم تھا

راہ زنی ، چوری ، ڈکیتی ، خانہ جنگی اور چھینا جھپٹی راہ راست سے بھٹکے ہوئے عیسائیوں ، مشرکوں اور یہودیوں کا منشور حیات بن چکی تھی

شراب نوشی ، جوا اور سود خوری عام تھی

معاشرہ سیاسی ، معاشی اور سماجی بے ضابطگیوں اور عدم توازن کا شکارتھا

امیر غریب کو اور طاقتور کمزور کو کھا رہا تھا

برائی ، بدکاری اور گناہ کو مجالس میں فخر کے ساتھ بیا ن کیا جاتا تھا

آج اسلام پر اپنے حقوق سلب کرنے کا الزام لگانے والی صنف نازک کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ، جنسی تسکین کے لئے اس عورت ذات کو محافل ومجالس میں ناچنے پر مجبور کیا جاتاتھا ، یہ منڈیوں اور میلوں میں بھیڑ بکری کی طرح فروخت ہوتی رہتی تھی ، گویا کہ اس کی قدر وقیمت کیلے کے چھلکے اور آم کی گھٹلی سے بھی کم تر تھی۔

جہالت اپنی انتہا کوچھو رہی تھی

الغرض انسانیت کاسائے گدائی لئے در –  در پر امن وسلامتی کی بھیک مانگتی پھر رہی تھی

تو انہی ایام میں سر زمین عرب میں ایک ایسی حسین وجمیل ہستی کا ظہور ہوا

جس میں زندگی کا جلال وجمال اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ جھلک رہا تھا۔

جس کی دعوت “اسلم تسلم”  ( اسلام قبول کرو اور سلامتی حاصل کرو) نے معاشرے میں امید اور زندگی کی روح پھونک دی

جس کی قیادت میں جاہل عرب معاشرے میں فتنہ وفساد کی جگہ امن وسلامتی نے لے لی

صدیوں سے بر سر پیکار قبائل آپس میں ایک ہو گئے

صلح واتفاق واتحاد کی فضا قائم ہوئی

عورت کو بحیثیت ماں ، بیٹی ، بہن اور بہو کے باعزت مقام ملا

بچیوں کو زندہ زمین میں درگور کرنے والے ان کی زندگی ، عزت وناموس اور حقوق کے محافظ بن گئے

زنا، سود ، چوری ، ڈکیتی ، زاہ زنی ،جوا اور شراب سے معاشرے کو نجات ملی

v    الغرض نبی مکرم ﷺ کے پیغام امن اور بالخصوص خطبہ حجۃ الوداع ( جو کہ اسلامی تعلیمات کا خلاصہ اور درحقیقت اسلامک ورلڈ آرڈر ہے) میں آپ کے جاری کردہ احکامات انسانیت کے لئے نوید حیات ثابت ہوئے جن سے معاشرے میں ہر لحاظ سے توازن قائم ہوگیا۔

درحقیت امن اسی بات کا نام ہے کہ انسانوں کو سماجی ، اقتصادی ، عرضی اور جانی لحاظ سے امن وسکون حاصل ہو جائے اور معاشرہ ان تمام عناصر اور مہلک عادات سے پاک ہو جائے جو بد امنی کا سبب بنتی ہیں ۔

نبی مکرم ﷺ نے درج ذیل شعبہ ہائے حیات میں قیام امن کے لئے احکامات جاری اور تعلیمات فراہم کیں:

سماجی اعتبار سے دیکھا جائے تو نبی مکرم ﷺ نے

  • ” انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس  من عمل الشیطٰن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون ” (المائدہ: 90)

مفہوم: ” بلاشبہ شراب ، جوا ، بت اور پانسے یہ پلیدگی ہے ، شیطان کے کاموں سے ہے پس اس سے اجتناب کرو تا کہ تم فلاح پا جاو”

جیسی تعلیمات کی تعلیم  دے کر جوا اور ام الخبائث شراب کے ہر استعمال کو حرام قرار دے کر معاشرے میں امن سلامتی کی روح پھونکی کیونکہ یہی شراب اور جوا ہے جس کی بناء پر لڑائی جھگڑے کی فضا قائم ہوتی اور معاشرے کا امن غارت ہوتا ہے ۔

  • رنگ ونسل اور لسانی تفاوت کی بناء پر ہونے والی خانہ جنگی اور علاقائی وخاندانی تعصب اورفخر و امتیازات کو ختم کرنے کے لئے آپ نے اپنے تاریخی خطاب ، خطبہ حجۃ الوداع میں  ” لیس لعربی علی عجمی فضل ولا لعجمی علی عربی ولا لاسود علی ابیض ولا لابیض علی اسود فضل”

مفہوم: “کسی عربی کو کسی عجمی پرکوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر ، اور نہ ہی کسی کالے کو کسی گورے پر اور نہ ہی کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے “

کا درس دے کر نسلی تفاخر اور برادری ازم کا قلع قمع کیا ۔

  • اسی طرح آپ ﷺ نے  ” واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ۔۔۔” (آل عمران: 103)

مفہوم: ” اور اللہ تعالیٰ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ بازی میں نہ پڑو”

کی تعلیم دے کر اتفاق واتحاد کی فضا کرنے کا بندوبست اور فرقہ بندی اور انتشار کا سد باب کیا ۔

  • سماج سے آپا دھاپی اور چھینا جھپٹی  کے خاتمے اور مسلمانوں کو ایثار وقربانی پر تیار کرنے کے لئے  ” ویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ” (الحشر:9)

مفہوم: “اور وہ اپنی ضرورت کی اشیاء بھی ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کو دیتے ہیں “

جیسی صفات اپنانے کی ترغیب دلائی، گویا آپ ﷺ نے عملی طور پر عدل وانصاف کا بول بالا کر کے معاشرے کو جنت نظیر بنا دیا۔

اقتصادی اعتبار سے نبی مکرم ﷺ نے

  • ہر اس عمل کو حرام قرار دیا جس سے لین دین کرنے والے ایک دوسرے کے مخالف بنیں یا جس سے انہیں ایک دوسرے کا حق غصب کرنے کا موقعہ ملے ۔ آپ ﷺ نے لوگوں کے اموال محفوظ کرنے کے لئے ” ولا تاکلو اموالکم بینکم بالباطل” (البقرۃ: 188)

مفہوم: ” ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقے سے نہ کھاو”

  • اور “السارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما” ( المائدۃ : 38)

مفہوم: ” چوری کرنے والے اور چوری کرنے والی کے ہاتھ کاٹ دو”

اور اسی طرح کے دیگر اللہ تعالیٰ کے احکامات لوگوں تک پہنچا کر تمام اراکین معاشرہ کے اموال کی حفاظت کا بندوبست کیا ۔

  • آپ ﷺ نے سود خوری ( جو کہ اقتصادی میدان میں ناسور کی حیثیت رکھتی ہے ، جس سے معاشی توازن بگاڑ کا شکار ہوتا اور گردش دولت متاثر ہوتی ہے ) کو قطعی حرام قرار دے کر افلاس وغربت کے خاتمے اور غریب عوام کی فلاح کے لئے اقدامات کئے۔

نفسی/ جانی لحاظ سے بھی آپ ﷺ نے

  • انسانیت کی فوز وفلاح اور خیر خواہی پر مبنی احکامات جاری کئے ، اس سلسلے میں آپ کی فراہم کردہ تعلیمات ” ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق” ( الاسراء: 33)

مفہوم: “کسی کو ناحق قتل مت کرو”

  • اور  “من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا” (المائدہ: 32) مفہوم: جسن نے ایک شخص کوقتل کیا پس گویا اس نے ساری انسانیت کا قتل کیا “

سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی دعوت اور تعلیم امن وسلامتی کی دعوت ہے ۔

عرضی (عزت کے معاملات) کے لحاظ سے آپ ﷺ نے

  • لوگوں کی عزتوں کو محفوظ کرنے کے لئے ایسی تعلیمات سے نوازا جن پر عمل کرنے سے عرضی(عزت وغیرت کے ) مسائل کی وجہ سے ہونے والے فسادات کا قلع قمع ہو جاتا ہے ،
  • آپ  ﷺ نے ” ولاتقربوا الزنا” ( الاسراء : 32) اور زنا کے قریب ہی نہ جاو ” کا حکم سنایا ، جس پر عمل کرنے سے لوگوں کی عزتیں اور حسب ونسب کی حفاظت ہو سکتی ہے ،
  • اسی طرح آپ نے تہمت اور بہتان بازی کی سزائیں مقرر کر کے عوام الناس کی عزتوں کو محفوظ کیا۔

آقائے کائنات ، محسن انسانیت کے پیش کردہ دین سے مذکورہ چند فرامین اس بات کو روز روشن کی طرح واضح کر تے ہیں کہ دین اسلام ، دین امن اور نبی مکرم ﷺ داعی امن ہیں۔

لیکن بنی مکرم ﷺ اور دین اسلام سے حسد وبغض رکھنے والوں کی فتنہ انگیزی اور شر پسندی کی اس سے بڑی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ وہ حق کو تسلیم کرنے کی بجائے الٹا الزام تراشیاں شروع کردیں۔

یہ فی الحقیقت یہود کے خبث باطن کا نتیجہ ہے جن کی مکاری ، غداری ، فتنہ انگیزی اور فسادی ذہنیت کی وجہ سے رحمۃ للعٰلمین نے “ا خرجوا الیھود اھل الحجاز واھل نجران من جزیرۃ العرب” ( مسند احمد: مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ: رقم الحدیث : 1599) یہود کو جزیرۃ العرب سے ہی نکال دو،جیسا سخت حکم صادر فرمایا۔

عزیزان ملت! آج ان یہود کو شدت کے ساتھ اس بات کا احساس ہے کہ عیسائیت کو یرغمال بنا لینے کے بعد تسخیر عالم کے منصوبے میں ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہی ہیں جن کو آپس میں تقسیم کرنے اور ان کو ان کے دین سے دور کرنے کے لئے ان لوگوں نے مختلف محاذوں پر کام شروع کر رکھا ہے ۔ یہ لوگ  ہادی کائنات کی ذات اقدس پر رکیک حملے  کرنےاور آپ ﷺ کو جنگ وجدل کی دعوت  دینے والا ثابت کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف  ہیں۔

 جبکہ نبی مکرم ﷺ نے اگر کچھ جنگیں کیں بھی تو وہ جنگ برائے جنگ نہیں بلکہ وہ جنگ برائے امن ہوا کرتی تھیں اور جنگ کے حالات میں نبی مکرم ﷺ کی یہی تعلیم ہے کہ مدمقابل کو پہلے امن وصلح کی دعوت دی جائے یعنی دین اسلام قبول کرنے کو کہا جائے اگر وہ تیار نہ ہوں تو جزیہ اور جنگ آخری آپشن ہے۔

معزز قاریئن کرام! آقائے کائنات کی جنگ کی حالت میں بھی ہدایات آپ کی امن پسندی کا ثبوت فراہم کرتی ہیں ، آپ کی سیرت طیبہ پر مشتمل احادیث کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر آپ ﷺ صلح جو ، صلح کوپسند کرنے والے اور صلح کروانے والے تھے ، آپ ﷺ انسانیت کے خیر خواہ اور محبت واخوت کا درس دینے والے تھے، آپ انتقام کی جگہ عفو ودرگزر کی تعلیم دیتے اور خود بھی اس پرعمل کرنے تھے

اگر آپ ﷺ شدت پسند ، انتقام پسند اور دہشت گردی کی تعلیم دینے والے ہوتے تو

  • آپ ﷺ فتح مکہ کے موقع پر واضح فتح حاصل کر لینے کے بعد سرتسلیم خم کئے ہوئے اپنے جانی دشمنوں کو ” اذھبوا انتم الطلقاء لاتثریب علیکم الیوم” کہ “جاو آج تم کو کھلی معافی ہے ، تم پر کوئی پکڑ نہیں ہے ” جیسی نوید امن نہ سناتے
  • آپ ﷺ ” من قتل معاھدا لم یرح برائحۃ الجنۃ” ( صحیح البخاری ، کتاب الجزیۃ : 293)  کہ ” جس نے کسی ذمی کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا” جیسی وعید نہ سناتے۔
  • آپ ﷺ جنگ کے موقعہ پر ” ولا تمثلوا ” ( سنن الترمذی ،کتاب الدیات ، باب ما جاء فی النھی عن المثلۃ : 1328) فرما کر مثلہ کرنے سے منع نہ فرماتے۔
  • اسی طرح آپ ﷺ جنگ کے موقعہ پر  ” ولا تقتلوا ولیدا” ( سنن الترمذی ، کتاب الدیات ، باب ما جاء فی النھی عن المثلۃ : 1328) ” کسی بچے کو قتل نہ کرو” اور ” ولا تقتلن امراۃ ولا عسیفا” ( سنن ابی داود ،کتاب الجھاد ، 2295)  “اور عورتوں اور مزدوروں کو بھی قتل نہ کیا جائے ” اور  ” ولا تقتلوا شیخا فانیا” ( سنن ابی داود ،کتاب الجھاد : 2247) ” اور کسی عمر رسیدہ (بوڑھے) کو بی قتل نہ کیا جائے ” جیسے احکامات صادر نہ فرماتے۔

نبی مکرم ﷺ کے دور میں تمام غزوات میں مسلمان شہداء کی تعداد 259 اور کفار مقتولین کی تعداد 759 ہے لیکن اس عظیم انقلاب امن و آزادی کے مقابلے میں ان جانو ں کی تعداد انتہائی کم ہے ۔

جبکہ دوسری طرف نام نہاد امن پسند قوتوں  کی کارکردگی بھی ملاحظہ فرمائیں کہ جنگ عظیم اول کے مقتولین کی تعداد 73،38،000 سے زائد اور جنگ عظیم دوم کے مقتولین کی تعداد: 4،43،43،000 سے زیادہ ہے ۔ روس کے سرخ انقلاب سے لے کر 1980ء تک 68،00،000 افراد قتل کئے گئے ۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ان سب کو مسلمانوں نے قتل کیا ؟  یا یہ بد نصیب لوگ اس صیہونی منصوبے کی بھینٹ چڑھ گئے جو سارے دنیا پر اپنی بلا شرکت غیرے حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے اور انسانیت کا مسلسل خون پئے جا رہا ہے ۔

اس سے  بھی بڑھ کر موجودہ حالات میں امریکہ ( جو کہ صیہونی تحریک کے ہاتھوں مکمل طورپر یرغمال ہو جانے والی ریاست ہے ) نے عراق اور افغانستان میں جو دہشت گردانہ رویہ اختیار کیا اور جھوٹے دعوں اور غلط مفروضات کو بنیاد بنا کر ان ممالک پر کارپٹ بم باری کی اور جنگجو و غیر جنگجو ۔ مرد یا عورت ،جوان یا بوڑھا بغیر کسی امتیاز کے سارے کے سارے ممالک کو تہس نہس کر ڈالا اور لاکھوں افراد کو اب تک خاک وخون میں نہلایا جا رہا ہے یہ کس کی تعلیمات کا نتیجہ ہے ؟؟؟؟ اور سب سے بڑھ کر اس نے اپنی ان جنگوں میں کسی بھی جنگی قانوں کو مدنطر نہیں رکھا ، اس کی جیلو ں میں قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک اور درندگی سے ساری دنیا واقف ہے لیکن شائد ساری دنیا کے معیارات بدل گئے اور ہر ملک دوہرے معیار کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے کہ غریب اور کمزور اقوام وممالک کے لئے تو اصول اور ہیں لیکن طاقتور کا ہر جرم اور بربریت ایک خاص مصلحت کا حامل بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے

لیکن آج حقیقت یہی ہے کہ سارا عالم کفر صیہونی تحریک کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اور سارے مل کر عالم اسلام پر ٹوٹ پڑے ہیں ، آگ وخون میں جلتا عراق و افغانستان اور غیروں کی سازشوں کا شکار مصر ، شام ، لیبیا اور پاکستان  اس کا واضح ثبوت ہیں۔ اور جرم صرف اتنا کہ یہ مسلم ممالک ہیں۔

گلہ غیروں سے نہیں ، صرف اپنوں سے گذارش ہے کہ وہ نام نہاد سیکولر اور روشن خیال بننے کے شوق میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر نہ اگلیں ، حقائق کو دیکھیں اور آنکھیں کھول کر بار بار دیکھیں !

اور خود بھی اس بات کو تسلیم کریں اور دوسرں کو بھی بتائیں کہ اسلام امن کا دین ہے

مزدکی ہو کہ افرنگی ہو مس خام میں ہے

امن عالم  فقط  دامن  اسلام  میں  ہے

 حضرت محمد ﷺ انسانیت کے خیر خواہ اور امن کے داعی اور پیغمبر ہیں ،آپ ﷺ کی سیرت و اسوہ ، دعوت وکردار اور تعلیمات وفرامین اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ ظلم وستم ، عداوت وبغاوت ، حسد وبغض اور ارہاب و دہشت گردی کو ختم کرنے والے اور عزت واخوت ، چاہت و پیار ، محبت وعفت ، شرافت وعدالت ، امن وآشتی اور صلح وسلامتی کے داعی ہیں

#Hazrat #Muhammad #PBUH #Last #Prophet of #Allah #Messenger of #Peace

"Why Effective Communication is the Cornerstone of Successful Educational Leadership: Insights from a Teacher and Educational Manager"

“Why Effective Communication is the Cornerstone of Successful Educational Leadership: Insights from a Teacher and Educational Manager”

Effective communication stands as the cornerstone of organizational success, particularly in educational environments where collaboration, clarity, and continuous feedback are paramount. As both a teacher and educational leader, I have observed firsthand how intentional communication strategies foster trust, mitigate conflicts, enhance productivity, and align teams toward shared goals. This article synthesizes insights from academic research, leadership theories, and practical case studies to demonstrate why communication is indispensable in educational leadership and how it directly impacts institutional outcomes. By examining communication through the lenses of conflict resolution, engagement, productivity, and theoretical frameworks, this study provides actionable strategies for leaders seeking to cultivate a culture of openness and efficiency.

The Fundamental Role of Communication in Educational Leadership

Educational leadership demands more than administrative competence; it requires the ability to inspire, guide, and unify diverse stakeholders. Communication serves as the vehicle through which leaders articulate vision, navigate challenges, and build cohesive teams.

Decision-Making and Strategic Direction

In educational settings, decision-making often involves balancing competing priorities, such as resource allocation, curriculum changes, and stakeholder expectations. Effective communication ensures that decisions are informed by collective input and transparently conveyed. For instance, when introducing a new teaching methodology, leaders must clearly explain its rationale, expected outcomes, and implementation steps to gain buy-in from faculty. The European Business Review emphasizes that communication forms the foundation of decision-making by enabling leaders to synthesize ideas and propose solutions grounded in collaborative dialogue. Similarly, a study on educational leadership highlights that clarity in messaging reduces ambiguity, ensuring that policies are understood and consistently applied across departments.

Communication also enables adaptive leadership. During crises-such as transitioning to remote learning-leaders must rapidly gather feedback, assess needs, and adjust strategies. The Transactional Model of Communication underscores this dynamic, framing interactions as continuous exchanges where feedback shapes subsequent decisions. By maintaining open channels, educational leaders can pivot strategies while preserving trust and alignment.

Building Trust and Transparency

Trust is the bedrock of effective leadership, and it is cultivated through consistent, honest communication. Research on Communication Leadership Theory reveals that leaders who prioritize transparency and active listening create environments where staff feel valued and heard. For example, when addressing budget cuts, a principal who openly shares financial constraints and invites input on cost-saving measures fosters a sense of shared responsibility. This approach not only mitigates resentment but also encourages innovative solutions from within the team.

Transparency extends to acknowledging challenges and failures. A leader who communicates setbacks-such as declining student performance-with candor, while outlining corrective measures, demonstrates accountability. This practice aligns with findings from Indeed.com, which notes that vulnerability in leadership strengthens team cohesion and resilience.

Conflict Mitigation Through Effective Communication

Conflicts in educational institutions often stem from misaligned expectations, resource disputes, or interpersonal tensions. Proactive communication strategies can preempt these issues and resolve them constructively.

Understanding Conflict Origins

Miscommunication is a primary catalyst for workplace conflict. For instance, a department head who fails to clearly articulate grading criteria may inadvertently create inconsistencies, leading to disputes among teachers. The Indeed.com study highlights that 67% of workplace conflicts arise from unclear instructions or role ambiguity. In educational settings, such misunderstandings can cascade into broader issues, affecting staff morale and student outcomes.

Communication Strategies for Resolution

Effective conflict resolution hinges on active listening and empathetic dialogue. Leaders should create safe spaces for dissenting voices, ensuring that all parties feel heard before mediating solutions. A case study from Teachers Institute illustrates how a school principal resolved a curriculum dispute by facilitating a structured dialogue where teachers expressed concerns and co-designed a compromise. This approach not only resolved the immediate conflict but also strengthened collaborative problem-solving skills within the team.

Regular check-ins and feedback loops further prevent conflicts. By scheduling monthly forums for staff to voice concerns, leaders can address issues before they escalate. The European Business Review advocates for such practices, noting that ongoing communication fosters a culture of mutual respect and preemptive problem-solving.

Enhancing Employee and Student Engagement

Engagement in educational institutions is a dual responsibility: leaders must motivate staff while ensuring students remain invested in their learning. Communication serves as the bridge connecting these objectives.

Internal Communication Channels

Engaged employees are more likely to contribute innovative ideas and exhibit loyalty. A Gallup study cited by EngageEmployee.com found that organizations with robust internal communication systems experience 41% lower absenteeism and 17% higher productivity. For educational leaders, this translates to leveraging tools like intranets, newsletters, and staff meetings to share updates, celebrate achievements, and solicit feedback.

Personalized communication further amplifies engagement. Recognizing individual contributions-such as a teacher’s successful grant application-in team meetings or newsletters reinforces their value to the institution. This practice aligns with Communication Leadership Theory, which emphasizes the importance of acknowledging efforts to inspire continued excellence.

Fostering a Collaborative Environment

Collaboration thrives in environments where communication is inclusive and multidirectional. For example, project-based learning initiatives require constant dialogue between teachers, students, and external partners. Leaders who model collaborative communication-such as co-creating lesson plans with faculty-set a precedent for teamwork. The European Business Review notes that such practices not only enhance productivity but also create a sense of shared purpose.

Student engagement similarly benefits from clear communication. Teachers who articulate learning objectives and provide constructive feedback help students understand their progress and areas for improvement. The Transactional Model of Communication illustrates this reciprocal process, where student responses inform instructional adjustments, creating a dynamic feedback loop.

Productivity and Communication Efficiency

Educational institutions operate under constant pressure to deliver high-quality outcomes with limited resources. Streamlined communication directly enhances operational efficiency.

Correlations Between Communication and Output

Research by Voxer reveals a strong correlation between communication clarity and productivity, with organizations reporting a 25% increase in output after improving internal communication practices. In schools, this might manifest as standardized protocols for sharing lesson plans, reducing redundant meetings, or automating routine updates. For instance, a district that implemented a centralized communication platform saw a 30% reduction in time spent on administrative tasks, allowing teachers to focus more on instruction.

Streamlining Processes with Digital Tools

Digital tools like Slack, Microsoft Teams, and learning management systems (LMS) revolutionize how educational teams collaborate. These platforms enable real-time updates, file sharing, and virtual meetings, which are particularly vital for remote or hybrid learning environments. EngageEmployee.com highlights that institutions using such tools report higher staff satisfaction and faster decision-making cycles. However, leaders must ensure these tools are accessible and accompanied by training to maximize adoption.

Theoretical Frameworks Informing Communication Practices

Understanding communication through theoretical lenses equips leaders with strategies tailored to their institutional context.

Transactional Model of Communication

This model, as detailed by CommunicationTheory.org, posits that communication is a simultaneous, reciprocal process influenced by context and feedback. In a classroom, this means a teacher’s lesson delivery (encoding) is shaped by student reactions (decoding), which in turn inform instructional adjustments. Leaders can apply this model by encouraging continuous feedback during staff meetings, ensuring that messages are adapted based on real-time responses.

Communication Leadership Theory

Introduced by Yoesoep Edhie Rachmad, this theory emphasizes empathy, clarity, and active listening as pillars of effective leadership. For example, a principal practicing this theory might hold “listening tours” to understand teacher challenges before implementing policy changes. By prioritizing two-way dialogue, leaders build trust and ensure that initiatives are grounded in frontline insights.

Strategies for Effective Communication in Educational Settings

Active Listening and Feedback Loops

Active listening involves fully engaging with speakers, paraphrasing their points, and asking clarifying questions. A study by Teachers Institute found that leaders who practice active listening reduce misunderstandings by 40% and improve policy compliance. Feedback loops-such as post-implementation surveys after introducing a new curriculum-provide data to refine strategies and demonstrate responsiveness to staff concerns.

Utilizing Multiple Communication Methods

Diverse audiences require tailored approaches. While younger staff may prefer digital communication, veteran teachers might value face-to-face meetings. Blending methods-such as email summaries followed by town halls-ensures inclusivity. EngageEmployee.com advocates for this hybrid approach, noting that it accommodates varying preferences and reinforces key messages through repetition.

Conclusion

Communication in educational leadership is not merely a functional skill but a strategic asset. By fostering transparency, resolving conflicts, enhancing engagement, and leveraging theoretical frameworks, leaders can transform their institutions into thriving, adaptive communities. The strategies outlined here-from active listening to digital tool integration-provide a roadmap for cultivating a communication-centric culture. As educational landscapes evolve, leaders who prioritize clear, compassionate, and continuous dialogue will be best positioned to navigate challenges and inspire excellence.

Future steps include investing in communication training for emerging leaders and adopting technologies that facilitate seamless information exchange. By embedding these practices into institutional DNA, educational managers can ensure that their teams remain resilient, innovative, and aligned with their mission.

دین اسلام

اسلام مکمل ضابطہ حیات

دین #اسلام#


(تحریر: ڈاکٹر رضوان علی)

“اسلام ایک دین ہے جو مکمل #ضابطہ حیات ہے”

یعنی دین اسلام زندگی گزارنے کے لئے مکمل اور مناسب راہ نمائی فراہم کرتا ہے ۔

ایک فرد کو انفرادی حیثیت سے جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اور #اجتماعی طور پر اسے کن باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے اسلام ان دونوں جہتوں سے فرد کو ہدایات فراہم کرتا ہے۔

ایک فرد کے  اس کی پیدائش حتیٰ کہ قبل از پیدائش سے لے کر اس کی وفات اور بعد از وفات تک کے حقوق وفرائض کی جامع انداز میں تعلیم اسلام ہی کی بدولت ہم کو ملتی ہے۔

اسلام ایک اعتدال پر مبنی منشور حیات ہے جس پر عمل کر کے ایک آدمی اچھا انسان بن سکتا ہے اور دنیا و آخرت کی کامیابی نہایت آسانی سے حاصل کر سکتا ہے ۔

اسلام ایسا ضابطہ حیات جو حقیقی کامیابی کا ضامن ہے ، اور اس ضابطہ حیات کا خالق کو ئی انسان نہیں بلکہ اللہ رب العزت کی عظیم المرتبت ذات ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے اس منشور حیات کو عطا کرکے ساتھ اپنی خواہش کا اظہار بھی فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کی خوشی اس بات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندے  اسلام کو ہی اپنا دستور زندگی سمجھیں اور مانیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے 

(الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی رضیت لکم الاسلام دینا) الآیۃ :

مفہوم: (جب نبی مکرم ﷺ دس ذوالحجۃ کو حج سے فارغ ہو رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں) آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تمہارے اوپر اپنی نعمت مکمل کر دی ، (اور) اسلام کو تمہارے لئے ضابطہ حیات پسند کیا ہے ۔

ایک انسان اپنی پیدائش سے لے کر وفات تک جو جو کردار ادا کرتا ہے اور اس کا جس جس مخلوق سے جیسا بھی واسطہ پڑتا ہے اس کو ہر کردار کے بارے مکمل اور فائدہ مند ہدایات جہاں سے مل سکتی ہیں وہ دین اسلام ہے ۔

ایک چھوٹے سے بچے کے کیا حقوق ہیں ؟؟؟ اسلام تفصیل سے بیان کرتا ہے۔

ایک لڑکپن کی عمر کے بچے کو کیسی راہ نمائی چاہیئے ؟؟؟ اسلام فراہم کرتا ہے ۔

ایک نوجوان کو کن عادات وخصائل کا رسیا کرنا ہے ؟؟؟ اسلام جواب دیتا ہے ۔

ایک جوان شخص کے کیا حقوق وفرائض ہیں ؟؟؟ اسلام تعلیم دیتا ہے ۔

ایک باعزت اور ذمہ دار شہری کیسا ہوتا ہے ؟؟؟ اسلام معیار مقرر کرتا ہے۔

ایک شادی شدہ فرد کے ذمہ کس کس کے کون کون سے حقوق ہیں ؟؟؟ اسلام تفصیلات فراہم کرتا ہے۔

ایک  بیٹے کے کیا فرائض ہیں ؟؟؟

ایک باپ کے کیا فرائض ہیں ؟؟؟

ایک ماں کے کیا حقوق وفرائض ہیں ؟؟؟؟

میاں بیوی نے کیسے زندگی گزارنی ہے ؟ ذمہ داریوں کی تقسیم کیسے ہو گی ؟؟؟

والدین جب بوڑھے ہو جائیں تو ان کا ٹھکانہ اصلی گھر ہے یا کوئی سرکاری اولڈ ایج ہوم ہے ؟؟؟

ایک شخص جب وفات پا جائے تو اس کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے ؟؟؟

کو ئی تندرست ہے تو کیا کرے ؟ کوئی بیمار ہے تو اس کا کیسے خیال رکھا جائے ؟؟؟

کوئی امیر ہے تو کیسے زندگی بسر کرے ؟ کوئی نادار اورمسکین ہے تو اس کو سہارا  کیسے فراہم کیا جائے ؟؟؟

کوئی مزدور ہے تو اس کا کیا حق ہے ؟ کوئی تاجر ہے تو اس کا کیا کردار ہے ؟؟؟

کوئی طاقتور ہے تو اس کی کیا حیثیت ہے ؟ اور اگرکوئی ناتوان اور کمزور ہے تو اسے کہاں سے مدد مل سکتی ہے ؟؟؟

گویا کہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ اور کردار ہو اسلام ہر معاملے میں اصول ،قوانین اور مکمل اور باآسانی قابل عمل ہدایات فراہم کرتا ہے۔

انسان کو اللہ تعالیٰ نے جسم عطاکرنے کے ساتھ  ساتھ مختلف صلاحیتیں اور خصلتیں بھی عطا کی ہیں ؛

 پیار کرنا ۔۔۔ نفرت کرنا۔۔۔ عزت کرنا ۔۔۔ بے عزتی کرنا ۔۔۔ دوستی کرنا ۔۔۔ دشمنی رکھنا ۔۔۔ سوچنے کی صلاحیت ،۔۔۔بات کرنے کی صلاحیت ،۔۔۔پلاننگ کرنے کی صلاحیت ۔۔۔ صلح کروانے کی صلاحیت ۔۔۔لوگوں کو لڑانے اور دوریاں پیدا کرنے کی صلاحیت ۔۔۔ مدد کرنے کی عادت ،۔۔۔رحم دلی۔۔۔ سنگ دلی ۔۔۔ سونا ۔۔۔ جاگنا ۔۔۔ ہنسنا۔۔۔ رونا ۔۔۔ بات کرنا ۔۔۔ خاموش رہنا ۔۔۔ کھانا ۔۔۔ پینا۔۔۔ پرہیز کرنا ۔۔۔ جنگ کرنا ۔۔۔صلح کرنا ۔۔۔ تعمیر ۔۔۔ تخریب اور ان جیسی اور ہزاروں عادات ۔۔۔  جبلتیں اور خصلتیں انسان کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا کردہ ہیں ۔

تو اب ان خصلتوں اور صلاحیتوں کو کب ؟ ۔۔۔کہاں ؟ ۔۔۔اور کیسے ؟۔۔۔ استعمال کرنا اور کہاں استعمال نہیں کرنا ؟۔۔۔ ان سب باتوں کا جواب ہمیں اسلام دیتا ہے ۔

 

اور ان تمام عادات و خصائل میں اللہ تعالیٰ کے احکامات اور نبی مکرم ﷺ کی ہدایات پر عمل کرنا ہی اسلام ہے ۔

#What is #Islam #Introduction to #Islam #Deen #CodeOfLife #Guidance #Divine

The Story of Stephen Hawking and The Simpsons: When Genius Meets Animation

Stephen Hawking, one of the most brilliant theoretical physicists of our time, was not only renowned for his groundbreaking work on black holes and the nature of the universe but also beloved for his sharp wit and sense of humor. Among his many cultural appearances, his multiple guest spots on The Simpsons stand out as a unique intersection of science and popular culture. This fascinating relationship between the iconic scientist and the long-running animated series not only brought complex scientific ideas to a broad audience but also showcased Hawking’s playful personality and his appreciation for the absurdity of life.

Stephen Hawking made his debut on The Simpsons in the Season 10 episode titled “They Saved Lisa’s Brain”, which aired in 1999. The episode centers around the town of Springfield being taken over by its Mensa chapter, including Lisa Simpson, who is frustrated by the town’s anti-intellectualism. The writers wanted a guest star who was smarter than all the Mensa members combined, and Hawking was the perfect fit.

In the episode, Hawking appears as himself, piloting a wheelchair equipped with helicopter blades and various gadgets. He humorously knocks out Principal Skinner with a boxing glove on a spring and saves Lisa from a collapsing bandstand. One of the memorable moments is when Homer mistakes Hawking for Larry Flynt, shouting, “Larry Flynt is right! You guys stink!” This joke was actually Hawking’s idea, reflecting his sharp sense of humor.

Hawking also delivers a witty line about the universe’s shape, calling Homer’s doughnut-shaped universe theory “intriguing” and joking that he might steal it. The episode blends references to Star Trek, Vincent van Gogh, and Frank Lloyd Wright, and even touches on the toroidal (doughnut-shaped) universe theory, making science accessible and entertaining.

Despite the episode’s mixed critical reception and relatively low viewership (about 6.8 million), Hawking’s cameo was widely praised and remains one of the best guest appearances in the show’s history.

Following his debut, Hawking appeared three more times on The Simpsons:

  •  (Season 16, 2005)

  •  (Season 18, 2007)

  •  (Season 22, 2010)

Each appearance featured Hawking playing himself, often interacting with Homer and Lisa in humorous and clever ways. His character was portrayed with a mix of scientific genius and self-deprecating humor, highlighting his ability to laugh at himself despite his monumental achievements and physical challenges.

Stephen Hawking was not just a guest star; he was a fan and friend of the show’s creators. He occasionally dropped by The Simpsons table reads, sharing jokes and enjoying the company of the writers and cast. Executive producer Matt Selman described Hawking as the show’s “most intelligent guest star” and noted that Hawking appreciated the absurdist humor of the series, which often tries to find meaning in a chaotic world-something Hawking himself related to deeply.

Al Jean, the show’s longtime producer, recalled that Hawking had a tremendous sense of humor and was particular about how he was portrayed. For instance, he refused to be shown drunk on screen, although he was happy to share a beer with Homer at Moe’s Tavern in the episode “They Saved Lisa’s Brain.”

Hawking’s appearances on The Simpsons helped popularize complex scientific ideas to audiences who might never have encountered them otherwise. Al Jean emphasized that Hawking’s cameos brought science and math into the mainstream in a fun, accessible way. The show’s writers cleverly integrated scientific concepts without alienating viewers, using humor and character interactions to spark curiosity.

Hawking himself acknowledged that many people knew him as much from The Simpsons as from his scientific work. This crossover appeal helped cement his status as a pop culture icon, bridging the gap between academia and everyday life.

After Stephen Hawking’s passing in 2018, The Simpsons paid tribute to him in various ways, including social media posts and commemorative images. Executive producer Matt Selman shared a poignant illustration of Hawking in his iconic wheelchair with Lisa Simpson sitting on his lap, symbolizing the bond between the scientist and the show’s intellectual spirit.

Hawking’s legacy on The Simpsons remains a testament to his wit, humility, and ability to engage with the world beyond the confines of academia. His appearances continue to be celebrated by fans and critics alike as some of the smartest and most memorable moments in the show’s long history.

Conclusion

The story of Stephen Hawking and The Simpsons is more than just a series of celebrity cameos; it is a remarkable example of how science and entertainment can intersect to educate, inspire, and entertain. Hawking’s willingness to embrace humor and popular culture helped demystify science and brought his genius to millions in a relatable way. Through his animated alter ego, Hawking showed that even the most profound minds can appreciate a good laugh-and that sometimes, the best way to understand the universe is with a little humor.

In the words of Hawking himself from The Simpsons: “Sometimes the smartest of us can be the most childish.” And indeed, his playful spirit continues to resonate with audiences around the world.

سورۃ الحجر کا تعارف اور بنیادی مضامین

سورۃ الحجر کا تعارف اور بنیادی مضامین

سورۃ الحجر کا تعارف اور بنیادی مضامین

#SuratAlHijir

سورۃ الحجر قرآن مجید کی 15ویں سورت ہے اور اس میں 99 آیات ہیں۔ یہ سورت مکی ہے، یعنی یہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ اس سورت کا نام “الحجر” اس میں مذکور قومِ ثمود کے علاقے “حجر” کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔

اہم مضامین:

توحید اور رسالت: اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسولوں کی صداقت پر زور دیا گیا ہے۔

قرآن کی عظمت: قرآن مجید کی حفاظت اور اس کی عظمت کا ذکر کیا گیا ہے۔
پچھلی قوموں کے واقعات: قومِ لوط، قومِ ثمود اور قومِ عاد کے واقعات بیان کیے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔

شیطان کی سرکشی: ابلیس کی سرکشی اور اس کے انسانوں کو گمراہ کرنے کے عزم کا ذکر کیا گیا ہے۔

آخرت کی یاد دہانی : قیامت کے دن کی ہولناکیوں اور جزا و سزا کا ذکر کیا گیا ہے۔

سورۃ الحجر میں شیطان کی سرکشی کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ خاص طور پر آیات 28 سے 42 میں، اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اور ابلیس کی سرکشی کا ذکر کیا ہے۔

اہم نکات

انسان کی تخلیق: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ انسان کو مٹی سے پیدا کرے گا (آیت 28-29)۔

ابلیس کی سرکشی: ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ انسان سے بہتر ہے کیونکہ اسے آگ سے پیدا کیا گیا ہے جبکہ انسان کو مٹی سے (آیت 32-33)۔

ابلیس کی سزا: اللہ نے ابلیس کو جنت سے نکال دیا اور اس پر لعنت بھیجی (آیت 34-35)۔

ابلیس کا چیلنج: ابلیس نے اللہ سے مہلت مانگی اور کہا کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرے گا، سوائے ان کے جو اللہ کے مخلص بندے ہیں (آیت 36-40)۔

اللہ کا جواب: اللہ نے فرمایا کہ اس کے مخلص بندوں پر ابلیس کا کوئی زور نہیں چلے گا، اور جو لوگ ابلیس کی پیروی کریں گے وہ جہنم میں جائیں گے (آیت 41-42)۔

—ڈاکٹر رضوان علی—